رہزنوں کا رہبروں سے رابطہ

464

وطن عزیز میں اشیاء خورو نوش اور دیگر اشیاء ضروریات کی قلت و مہنگائی کا سبب ذخیرہ اندوزوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں کسی ملک میں اشیاء ضروریات کی کمی کا سبب ذخیرہ گاہوں کی کمی قرار دیا جائے تو اہل وطن کی حیرت پرحیرت کا اظہار حیرت انگیزی کہلائے گا۔ ایک خبر کے مطابق فلپائن میں پیاز کی قلت نے بحران کی صورت اختیار کر لی ہے۔ وہاں کے لوگ بھی ہماری طرح پیاز کھانے کے بہت شوقین ہیں۔ ہر سالن میں پیاز کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے کہ اس کے بغیر منہ کا ذائقہ منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ فلپائن میں پیاز کی قلت کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہاں ذخیرہ گاہوں کی کمی ہے۔ اس کمی نے پیاز کا بحران پیدا کر دیا ہے۔ پیاز کے بحران نے غریب آدمی کے قوت خرید کو اتنا غریب کر دیا ہے کہ وہ پیاز خریدنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
پیاز کی قلت کے باعث وہاں پر ایک کلو پیاز کی قیمت پاکستانی کرنسی کے مطابق دو ہزار روپے ہے جو غریب آدمی کی قوت خرید سے بہت زیادہ ہے۔ اس پس منظر میں فلپائن کے ایک ریٹیل اسٹور کے مالک نے غریب آدمی کو مفت پیاز فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس پر عمل در آمد کرنے کے لیے پیاز کو کرنسی کا درجہ دے دیا۔ اس نے اعلان کیا کہ کوئی بھی شخص کسی بھی سائز کی پیاز دے کر اپنی پسند کی کوئی ایک چیز خرید سکتا ہے۔ ریٹیل اسٹور کا یہ فیصلہ بہت کامیاب رہا۔ بہت سے لوگوں نے پیاز کے بدلے اپنی پسند کی کوئی ایک چیز خرید لی اور اسٹور کے مالک نے یہ پیاز ان لوگوں کو مفت فراہم کی جو خریدنے کی قوت نہیں رکھتے تھے۔
ریٹیل اسٹور کے اعلان کے مطابق پیاز کے ذریعے خریداری کرنے والا اپنی پسند کی تین چیزوں کے نام بتاتا اور اسٹور پر کام کرنے والے ان تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز دے کر پیاز خرید لیتے۔ یہ پروگرام ایک دن کے لیے تھا مگر لوگوں کا جوش و خروش بہت دنوں تک لوگوں کا موضوع سخن بنا رہا۔ ریٹیل اسٹور کے مالک کے اعلان کے مطابق پیاز غریبوں میں مفت تقسیم کی گئی۔ اس پس منظر میں وطن عزیز میں اشیاء خورو نوش اور دیگر اشیاء ضروریات کی قلت کا جائزہ لیا جائے تو احساس ندامت سے سر گریبان میں چھپنے لگتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی ان دنوں پیاز اور پٹرول کی شدید قلت ہے۔ پیاز دو سو پچاس روپے فروخت ہو رہا ہے مگر کوئی بھی ادارہ اور سرکاری عہدیدار اس مہنگائی کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا۔ المیہ یہ بھی ہے کہ کوئی صاحب ثروت قوت خرید سے محروم لوگوں کو مفت اشیاء کی تقسیم کے بارے میں نہیں سوچتا۔ ہم نے سوچنے کے بارے میں سوچا تو پشاور کا ایک اقلیتی دکاندار یا د آ گیا جو ماہ رمضان میں اشیاء خورو نوش کی قیمتوں میں دھماکہ خیز کمی کر دیتا ہے۔ ہم نے دھماکہ خیزی کی بات اس لیے کی ہے کہ اکثر مصنوعات ساز ادارے اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے اعلان کو دھماکہ بچت قرار دیتے ہیں۔ کچھ دکاندار سے میگا آفر بھی کہتے ہیں۔ مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ وہ قیمتوں میں اضافہ کر کے کمی کا اعلان کرتے ہیں۔ خریدار سمجھتا ہے کہ اس نے رعایتی قیمت ادا کی ہے حالانکہ قیمت میں رعایت نہیں کی جاتی۔ جو قیمت بڑھائی جاتی ہے اسے نکال کر دھماکہ خیز یا میگا آفر کا نام دیا جاتا ہے۔
اچھے زمانے میں کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور بلدیہ کے اہلکار گھوم پھر کر اشیاء خورو نوش خاص کر سبزی کی قیمت پوچھتے رہتے تھے۔ زیادہ قیمت لینے والوں کو جرمانے کی سزا دیا کرتے اور یہ جرمانہ موقع پر ہی وصول کر لیا جاتا۔ جرمانے کے خوف سے دوکاندار زائد قیمت لینے سے ڈرتے تھے مگر اب یہ وقت آگیا ہے کہ سبزی فروش اپنی مرضی کی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ پیاز دو سو پچاس سے دو سے روپے تک فروخت ہو رہی ہے۔ پیاز میں صرف سائز کا فرق ہوتا ہے۔ چھوٹی بڑی پیاز کا تعلق خریدار کی مرضی پر ہوتا ہے۔
پٹرول کی قیمت میں تو فرق نہیں ہوتا مگر پٹرول مالکان اتنا پٹرول دیتے ہیں کہ گاہک دوسرے دن پھر آئے اور لائن میں کھڑا ہو جائے۔ شاید لوگوں کو لائن میں کھڑا دیکھ کر ان کی اذیت پسند فطرت کو سکون ملتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے ملک میں پٹرول کی کمی نہیں۔ یہ قلت مصنوعی ہے جو پٹرول پمپ مالکان کی کارستانی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والے کچھ پٹرول پمپ بند کر دیے گئے ہیں۔ پٹرول پمپ مالکان کو یہ باور بھی کرایا جا رہا ہے کہ جنہوں نے پٹرول کی ذخیرہ اندوزی کی ہے ان کے پٹرول پمپ ضبط کر لیے جائیں گے۔ تماشا گروں نے تماشا لگانے کے لیے کچھ پٹرول پمپ بند بھی کیے ہیں اور ان پر جرمانے بھی لگائے گئے ہیں۔
بے حسی کی انتہاء یہ ہے کہ جان بچانے والی ادویات اور تکلیف میں کمی کرنے والی ادویات کی ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے۔ اگر ذخیرہ اندوزی کرنے والی دوا ساز کمپنیوں اور پٹرول پمپوں کی بندش کر دی جائے تو قوم کو ذخیرہ اندوزی کی لعنت سے چھٹکارا مل سکتا ہے مگر یہ ممکن نہیں کیونکہ
رہزنوں کا رہبروں سے رابطہ
لٹ گیا میرا وطن اور ’’فیصلہ‘‘ محفوظ ہے