انتخابات کب ہوں گے؟

411

دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم ایک جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر اس ملک میں انتخابات ناگزیر ہیں۔ انتخابات کے ذریعے ہی ملک کا سیاسی بحران ختم ہوسکتا ہے اور مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ البتہ انتخابات کب ہوں گے؟ یہ کسی کو نہیں معلوم۔ معروف دانشور اور طنزنگار انور مقصود نے اس لاعلمی میں نعوذباللہ خدا کو شامل کرلیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن، حکومت، عدالت حتیٰ کہ خدا کو بھی نہیں معلوم کہ انتخابات کب ہوں گے۔ تاہم فوج جانتی ہے کہ انتخابات کب ہوں گے لیکن وہ ہمیں بتا کر نہیں دے رہی۔ ہم اس پر یہ اضافہ کریں گے کہ فوج بھی نہیں جانتی صرف امریکا یا آئی ایم ایف جانتا ہے۔ جب ان میں سے کوئی ایک اشارہ کرے گا تو انتخابات ہوجائیں گے۔ اس کنفیوژن نے حکومت اور اپوزیشن سمیت پوری قوم کو اذیت میں مبتلا کررکھا ہے۔ حکومت کی اذیت یہ ہے کہ کہیں واقعی عمران خان کے ہوتے ہوئے انتخابات نہ ہوجائیں، ہماری تو کوئی تیاری ہی نہیں۔ آئی ایم ایف نے ہماری مشکیں کس رکھی ہیں، اس نے ہمیں عوام کے سامنے جانے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔ آئین کہتا ہے کہ اسمبلی کی مدت پوری ہوجائے یا اسمبلی تحلیل ہوجائے تو 90 دن کے اندر انتخابات کرانے ضروری ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی عبوری حکومتوں کو یہی مسئلہ درپیش ہے۔ یہ حکومتیں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے نتیجے میں عارضی طور پر وجود میں آئی ہیں، عوام کی نمائندگی کا کوئی استحقاق نہیں رکھتیں لیکن پھسکڑا مار کر بیٹھ گئی ہیں اور اُٹھنے کا بظاہر کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔ لیکن دوسری طرف اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ آئین کے مطابق 90 دن کے اندر بلاتاخیر انتخابات کرائے جائیں۔ یوں تو اپوزیشن میں جماعت اسلامی بھی شامل ہے لیکن اسے انتخابات سے زیادہ عوام کی فکر ہے جو روز افزوں مہنگائی کے ہاتھوں ہلکان ہورہے ہیں اور جماعت اسلامی حکمرانوں کی بے حسی کے خلاف احتجاج کرنے میں مصروف ہے۔ میڈیا اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے صرف عمران خان کو کوریج دے رہا ہے۔ اِن صاحب کا معاملہ اُن بچوں کی طرح ہے جو ریت پر گھروندے بناتے ہیں پھر ایک ٹھوکر سے انہیں بگاڑ دیتے ہیں اور فوراً بعد انہیں پھر سے بنانا شروع کردیتے ہیں۔ خان صاحب نے پنجاب میں (ق) لیگ کے اشتراک سے حکومت بنائی۔ پرویز الٰہی کی سربراہی میں یہ حکومت ٹھیک ٹھاک چل رہی تھی کہ خان صاحب نے پنجاب اسمبلی (اور خیبر پختون خوا اسمبلی بھی) توڑنے پر اصرار شروع کردیا۔ پرویز الٰہی نے بہت سمجھایا کہ اسمبلی اور حکومت کو چلنے دیں اگر ہماری حکومت عام انتخابات تک کام کرتی رہی تو مسلم لیگ (ن) کا بوریا بستر پنجاب سے گول ہوجائے گا لیکن وہ عمران خان ہی کیا جو اپنی ضد سے ٹل جائیں۔ خان صاحب اپنی ضد پر اَڑے اور دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تڑوا کر چھوڑیں۔ حکومتیں بھی گئیں اور ان پر مخالفین قابض ہوگئے۔ اب خان صاحب نے یہ واویلا شروع کردیا کہ آئین کے مطابق ان اسمبلیوں کے 90 دن کے اندر انتخابات کرائے جائیں۔ بلاشبہ یہ ان کا واویلا نہیں مطالبہ تھا اور یہ مطالبہ درست تھا لیکن ان سے یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر انہیں اسمبلیوں کی اتنی جلدی ہے تو انہیں توڑنے کی اتنی جلدی کیوں تھی؟
یقینا آئین پر عملدرآمد بہت ضروری ہے لیکن ہمارے ہاں ایک آئین تو وہ ہے جو کتاب میں لکھا ہوا ہے اور ایک عملی آئین وہ ہے جسے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کہتے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہ لاٹھی پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتوں کے ہاتھ آگئی ہے وہ اسے چاروں طرف گھما رہی ہیں اور آئین کی دوہائی دے رہی ہیں۔ دُنیا میں کہیں بھی تیرہ جماعتوں کی مشترکہ حکومت نہیں ہے۔ دنیا میں کہیں بھی 75 ارکان پر مشتمل کابینہ نہیں ہے۔ دنیا میں کہیں بھی ججوں اور جرنیلوں کو احتساب سے بالاتر نہیں رکھا گیا۔ دنیا میں کہیں بھی کرپشن میں لتھڑے ہوئے لوگوں کو حکومت نہیں دی جاتی بلکہ انہیں احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ہمارے ملک میں ہورہا ہے جو جمہوری بھی ہے اور اسلامی بھی، وہی جمہوریت جس میں لوگوں کی رائے مانی جاتی ہے اور وہی اسلام جس میں عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
اب یہ سیاسی کھیل یہاں آکر پھنس گیا ہے کہ جس شخص کو ہم نے تحریک عدم اعتماد لا کر اقتدار سے نکالا تھا کہیں وہ انتخابات کے ذریعے پھر برسراقتدار نہ آجائے۔ بے شک اس نے اپنے پونے چار سالہ دور اقتدار میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن ہم تو اس سے بھی گئے گزرے ثابت ہوئے ہیں۔ اس لیے ہم انتخابات کیوں کرائیں، ہم تو انتخابات اُس وقت کرائیں گے جب اس شخص کو نااہل قرار دے دیں گے اور اسے انتخابات کی دوڑ سے نکال باہر کریں گے۔ پھر انتخابات کا جو نتیجہ بھی آئے گا وہ ہماری کامیابی پر مہر تصدیق ثبت کردے گا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ بالکل ایسا ممکن ہے اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو پھر اس ملک میں انقلاب آئے گا اور سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ لیکن ڈر ہے کہ کہیں یہ انقلاب بھی ہائی جیک نہ کردیا جائے۔