پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کرنیوالا فرنٹ لائن ملک ہے، شیری رحمن

1091

کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری ) وفاقی وزیر کلائمنٹ چینج سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ پاکستان نے صدی کے بد ترین سیلاب کا سامنا کیا، سیلاب سے یورپ کے تین ملکوں کے برابر آبادی متاثر ہوئی، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات تیزی سے گہرے  ہورہے ہیں سمندری آّلودگی کی روک تھام نہ کی گئی تو یہ اثرات مزید شدت اختیار کرجائیں گے۔

پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس کے دوسرے روز منعقدہ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا سامنا کرنے والا فرنٹ لائن ملک ہے جسے 2022میں ہی خشک سالی کے دونوں اثرات خشک سالی اور بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔

وفاقی وزیر کلائمنٹ چینج سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ پاکستان نے صدی کے بد ترین سیلاب کا سامنا کیا، سیلاب سے یورپ کے تین ملکوں کے برابر آبادی متاثر ہوئی، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات تیزی سے گہرے  ہورہے ہیں سمندری آّلودگی کی روک تھام نہ کی گئی تو یہ اثرات مزید شدت اختیار کرجائیں گے۔

پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس کے دوسرے روز منعقدہ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا سامنا کرنے والا فرنٹ لائن ملک ہے جسے 2022میں ہی خشک سالی کے دونوں اثرات خشک سالی اور بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ سمندر کاربن کو جذب کرنے کا بڑا قدرتی ذریعہ ہیں لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی قدرتی وسائل لامحدود نہیں ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ سمندری آلودگی اس اہم قدرتی وسائل کو ضایع کرنے کا سبب بن رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ساحلی آبادیاں سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہیں اور دنیا میں ایکویٹر کے قریب واقع ممالک اور ساحلی آبادیوں کا ایکو سسٹم بھی ایک دوسرے سے منسلک ہے اگر پاکستان کا ایکو سسٹم متاثر ہوگا تو دوسرے ملکوں کو بھی اسی طرز کی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سب سے کم کاربن پیدا کرنے والے ملکوں میں شامل ہے تاہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کرنیو الے سرفہرست ملکوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان کاربن پیدا کرنے والے بڑے ملکوں اور کارپوریشنز کو روک نہیں سکتا تاہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیی اپنا طرز زندگی تبدیل کرسکتے ہیں جس میں مائکرو پلاسٹک کا استعمال ترک کرنا اور پانی کی بچت سب سے اہم ہیں۔

سینیٹر شیری رحمں نے انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو و سیمینار کے انعقاد کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ دنیا بھرکی نیویز مل کر امن کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں اور سمندروں کو لاحق خدشات کے تدارک کے لیے بھی مل کر کام کررہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سمندر کاربن کو جذب کرنے کا بڑا قدرتی ذریعہ ہیں لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی قدرتی وسائل لامحدود نہیں ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ سمندری آلودگی اس اہم قدرتی وسائل کو ضایع کرنے کا سبب بن رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ساحلی آبادیاں سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہیں اور دنیا میں ایکویٹر کے قریب واقع ممالک اور ساحلی آبادیوں کا ایکو سسٹم بھی ایک دوسرے سے منسلک ہے اگر پاکستان کا ایکو سسٹم متاثر ہوگا تو دوسرے ملکوں کو بھی اسی طرز کی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سب سے کم کاربن پیدا کرنے والے ملکوں میں شامل ہے تاہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کرنیو الے سرفہرست ملکوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان کاربن پیدا کرنے والے بڑے ملکوں اور کارپوریشنز کو روک نہیں سکتا تاہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیی اپنا طرز زندگی تبدیل کرسکتے ہیں جس میں مائکرو پلاسٹک کا استعمال ترک کرنا اور پانی کی بچت سب سے اہم ہیں۔

سینیٹر شیری رحمں نے انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو و سیمینار کے انعقاد کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ دنیا بھرکی نیویز مل کر امن کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں اور سمندروں کو لاحق خدشات کے تدارک کے لیے بھی مل کر کام کررہی ہیں۔

قبل ازیں سینیٹر مشاہد حسین سید نے 10 ویں انٹرنیشنل میری ٹائم کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ میری ٹائم کانفرنس پاکستان کے ساحلی وسائل کے ساتھ علاقائی اہمیت کو بھی اجاگر کرے گی۔ پاکستان کی بلیو اکانومی کا مرکز بلوچستان ہے،پاکستان کی معاشی خوشحالی کا دروازہ بھی گوادر کی شکل میں بلوچستان سے کھلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ساحلی پٹی، سی پیک اور مواصلاتی رابطے جیسی خصوصیات پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ سیاسی حکومتوں کی نالائقی اور ویژن کی کمی کی وجہ سے اس پوٹینشل سے فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکا

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان کے اردگرد حالات بدل چکے ہیں خطے میں جاری پراکسی وارز ختم ہوچکی ہے۔ امریکا کا افغانستان سے انخلاء ہوچکا ہے ۔ خطے کے بدلتے حالات پاکستان کی بلیو اکانومی اور علاقائی تجارت کے لیے مواصلات کی اہمیت کو بڑھا رہے ہیں۔ وسط ایشیائی ریاستیں گودار کے زریعے تجارت کی خواہش مند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کا منصوبہ پاکستان میں سیکیورٹی خدشات کے حالات میں شروع ہوا چین نے اس وقت پاکستان میں سرمایہ کاری کی جب پاکستان سیکیورٹی کے لحاظ سے نازک وقت سے گزررہا تھا دس سال قبل پاکستان میں دہشت گردی جاری تھی اور افغانستان میں جنگ چل رہی تھی چین نے اس وقت پاکستان کا انتخاب کیا اور روڈ اینڈ بیلٹ منصوبہ شروع کیا۔

تھر کول اور گوادر منصوبہ ایک خواب تھا آج تھرکول اور گوادر فنکشنل ہیں اور یہ خواب حقیقت بن چکا ہے،سی پیک سے پاکستان کو 85 ہزار نوکریاں ملیں ۔ 25 ہزار اسکالرشپس ملیں،600 کلومیٹر کی سڑکیں بنیں،خطے میں بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے پاکستان کو  اسٹڑیٹیجکل اسپیس ملا ہے۔

کانفرنس سے ملکی وبین الاقوامی ماہرین نے بھی خطاب کیا اور سمندر سے جڑی معیشت کو لاحق خدشات اور امکانات پر روشنی ڈالی۔  بدر ایکسپو سلوشنز کے سی او او زہیر نصیر نے کانفرنس کے مندوبین اور شرکاء کو خوش آمدید کہا۔ زہیر نصیر نے کہا کہ کانفرنس اور نمائش کے انعقاد کا مقصد پاکستان میں سمندر سے جڑے معاشی وسائل کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا ہے۔ نمائش میں بڑے پیمانے پر بین الاقوامی شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اور کانفرنس عالمی اہمیت حاصل کررہی ہے۔