الیکشن کمیشن کی مدد سے انکار

992

صدر مملکت پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر کے نام اپنے تحریر کردہ مراسلے میں کہا ہے کہ وہ پنجاب اور کے پی کے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کریں۔ آئین اس تاخیر کی اجازت نہیں دیتا۔ الیکشن کمیشن، الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق دونوں صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابی شیڈول جاری کرے، آئین کا آرٹیکل (2) 224 اسمبلیاں تحلیل کرنے کے 90 دن کے اندر الیکشن کرانے پر زور دیتا ہے۔ صدر پاکستان نے مزید تحریر کیا ہے کہ انتخابات کے حوالے سے اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکامی کی صورت میں الیکشن کمیشن ہی کو آئین کی خلاف ورزی کا ذمے دار ٹھیرایا جائے۔ لہٰذا آئین اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج سے بچا جائے اور تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابی شیڈول کا فوری اعلان کیا جائے۔ چیف الیکشن کمشنر کے نام صدر مملکت کا خط ان قیاس آرائیوں کے بارے میں بعض حکومتی وزرا کے بیانات بھی سامنے آئے ہیں جس کے مطابق دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے۔ الیکشن کمیشن کو قومی اسمبلی میں خالی ہونے والی 93 نشستوں پر ضمنی انتخابات اور پنجاب، خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کرانے ہیں۔ یہ بات واضح طور پر نظر آرہی ہے کہ موجودہ مخلوط حکومت فوری طور پر انتخابات کے لیے تیار نہیں ہے، انتخابات کے عمل میں جانے سے جھجک رہی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات اور دونوں صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے وفاقی حکومت کے تین اہم محکموں سے تعاون کی مدد مانگی تھی۔ وزارت دفاع سے یہ کہا گیا کہ انتخابات کی نگرانی اور پولنگ اسٹیشن کی حفاظت کے لیے فوج اور رینجرز کی نفری کا مطالبہ کیا تھا، وزارت خزانہ سے یہ اپیل کی گئی تھی کہ انتخابی اخراجات کی مد میں اضافی گرانٹ دی جائے۔ الیکشن کمیشن نے بتایا تھا کہ انہیں 60 ارب روپے میں ریٹرننگ افسروں کی عدلیہ سے تقرر کے لیے رابطہ کیا تھا، جس کے جواب میں لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے الیکشن کمیشن کو خط کے ذریعے معذرت کرلی اور الیکشن کمیشن کو بتایا پنجاب میں سوا تیرہ لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ عدالتی افسران کی فراہمی سے مقدمات کا التوا مزید بڑھ جائے گا۔ وزارت دفاع نے دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر وزارت خزانہ نے معاشی مشکلات کے پیش نظر اضافی گرانٹ کی فراہمی سے معذرت کرلی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے تحریری طور پر الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا ہے کہ چیف جسٹس کی ہدایت پر وہ یہ خط تحریر کررہے ہیں۔ عدلیہ کی جانب سے عدالتی افسران فراہم کرنے سے معذرت، وزارت دفاع کی جانب سے امن وامان کی خرابی اور دہشت گردی کے خطرے اور وزارت خزانہ کی جانب سے معاشی ابتری کو سبب قرار دے کر الیکشن کمیشن کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ فی الحال انتخابی عمل میں جانا طاقتور طبقات کے حق میں نظر نہیں آتا۔ فوج کی طرف سے واضح الفاظ میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ اندرونی سلامتی کے امور میں مصروف ہے۔ صوبہ پنجاب کے پولیس کے سربراہ کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ صوبے میں دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے، اس لیے جاری آپریشن مکمل ہونے تک سیکورٹی فراہم کرنا مشکل ہے۔ پشاور میں پولیس لائنز میں ہونے والے تباہ کن خودکش حملے نے شہریوں کو اپنے جان و مال کو درپیش خطرات میں اضافہ کردیا ہے۔ پولیس لائنز پر حملہ پہلی واردات نہیں ہے۔ گزشتہ 20 برسوں سے تو ’’امریکی وار آن ٹیرر‘‘ جاری ہے۔ جس کے درمیان پورا پاکستان دہشت گردی کا شکار تھا، اس کے باوجود انتخابی عمل تسلسل سے جاری ہے مگر یکدم اعتماد میں پی ڈی ایم کی کامیابی کے بعد سیاسی انتشار میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس لیے نئے انتخابات کو سیاسی بحران کا حل بتایا جارہا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی نے بھی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان رابطہ کرانے کی کوشش کی کہ دونوں فریق نئے انتخابات کی تاریخ پر متفق ہوجائیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا، حالاں کہ انتخابات کی تاریخ کے تعین میں چھے مہینے اور سال بھر سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ سیاسی بحران کے حل کے لیے انتخابات کے ذریعے نیا مینڈیٹ حاصل کرنا ضروری تقاضا بن گیا ہے، پاکستان کا جو اقتصادی بحران ہے اس کے بارے میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ سیاسی حکومت کی جگہ ماہرین مشتمل غیر سیاسی حکومت تشکیل دی جائے۔ یہ تجویز مجموعی طور پر قبول نہیں کی گئی، لیکن یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہا کہ انتخابی عمل کی انجینئرنگ کی طاقت رکھنے کے باوجود انتخابی عمل سے خوف پایا جارہا ہے۔ کیا نیا سانحہ پشاور بھی کسی ایسی ہی منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے؟ انتخابات کے انتظامات کے لیے مالیاتی اور انسانی وسائل کی فراہمی سے گریز کی وجہ کیا ہے؟