تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ

507

اقتصادی بحران نے قوم کے بہت بڑے حصے کو جن مصائب میں مبتلا کردیا ہے۔ اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کردینے کے لیے کافی ہے۔ ہر شخص کو اگر وہ نظر رکھتا ہے تو وہ اپنے آس پاس عبرت کا درس دینے والی داستانیں نظر آجائیں گی۔ بھوک، افلاس اور معاشی تنگی ہر صاحب درد کو بے چین کرسکتی ہے مگر ہمارا حکمران طبقہ ان حالات سے سبق سیکھنے اور اپنے خالق کے احتساب سے خوف کھانے کے بجائے اسی بے حسی اور سفاکی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ جن لوگوں کی حکومت ان کی تجوریوں اور بینکوں میں اربوں کی رقوم (ہر کرنسی میں) سانپ اور بچھو کی طرح موجود ہیں۔ قوم اپنے حکمرانوں اور عالمی سود خواروں کے گٹھ جوڑ کو دیکھ رہے ہیں اور ان کی طرف سے نصیحت آموز کلمات بھی سننے کو مل رہے ہیں کہ قوم کو قربانی دینی پڑے گی۔ وزیراعظم کی جانب سے یہ پروگرام سامنے آیا کہ اخراجات میں کفایت شعاری کی جائے گی تا کہ سنگین معاشی حالات کا سامنا کرسکیں، لیکن حکومتی اشرافیہ کے وہی چلن ہیں جو پہلے تھے۔ وہ حکومت جس کے مستقبل کا علم خود اس کے ساتھیوں کو نہیں ہے وہ اختیارات اور وسائل سے استفادے میں مصروف ہیں۔ کفایت شعاری کا دعویٰ کرنے والی حکومت کے ’’کارناموں‘‘ کو دیکھیں تو میاں شہباز شریف کی کابینہ 85 ارکان تک پہنچ چکی ہے۔ بعض مبصرین نے تبصرہ کیا ہے کہ کابینہ کی سنچری مکمل ہونے والی ہے اور تاریخی کابینہ کا ریکارڈ قائم ہوگا۔ یہ کابینہ وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، مشیر اور معاونین خصوصی پر مشتمل ہے جب کہ قومی اسمبلی میں 38 پارلیمانی سیکرٹری موجود ہیں۔ دلچسپ تماشا یہ ہے کہ 40 معاونین خصوصی کی فہرست میں بیش تر لوگوں کے پاس کوئی محکمہ بھی نہیں یعنی انہیں مراعات سے استفادہ کرنے کا شوق ہے۔ حکومت نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ معاونین خصوصی کابینہ کا حصہ نہیں ہیں لیکن یہ تو بتایا جائے ان معاونین خصوصی کے اندر وہ کیا خوبیاں پائی جاتی ہیں یا ان کے کیا کارنامے ہیں جو وزیراعظم کو معاونت فراہم کریں گے۔ تازہ ترین اضافے کے ساتھ معاونین کی تعداد 40 ہوگئی ہے۔ ملک شدید ترین معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کے طرزِ سیاست اور طرز حکمرانی میں کہیں احساس ذمے داری اور درد مندی نظر نہیں آتی۔