ڈالر کی اسمگلنگ اور ڈیفالٹ کا خطرہ

1214

پاکستان کی پوری قومی زندگی ایک نکتے کے گرد مرکوز ہوگئی ہے کہ ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے زرمبادلہ یعنی ڈالر کے ذخائر کو کس طرح بڑھاوا دیا جائے۔ ڈالر کی قلت کی وجہ سے صنعتی، تجارتی اور مالیاتی سرگرمیاں بُری طرح متاثر ہوچکی ہیں۔ حکومت ڈالر کی قدر بڑھنے سے نہیں روک سکی ہے، ڈالر کی قیمت میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے ہر شے کی لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے، چاہے وہ درآمدی خام مال یا اپنے ہی ملک میں موجود ذرائع وسائل۔ اسی دوران آئی ایم ایف کا ایک وفد واشنگٹن سے اسلام آباد پہنچا ہوا ہے، کہا جارہا ہے کہ وزارت خزانہ کے اہلکار آئی ایم ایف قرضے کی قسط جاری کرنے کے سلسلے میں مذاکرات کررہے ہیں۔ اس عرصے میں جو کچھ خبریں آئی ہیں اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ آئی ایم ایف سے پاکستان کے وزارت خزانہ کے اہلکار مذاکرات کرنے کے بجائے احکامات سننے پر مجبور ہیں۔ موجودہ اور سابق حکومتوں میں بیٹھے معاشی ماہرین اس گمان میں تھے کہ ہم آئی ایم ایف کو قائل کرلیں گے، قرضوں کی واپسی کی مہلت بڑھائیں اور پاکستان کے عوام کو رعایتیں دیں۔ کورونا کی وبا اور روس یوکرین جنگ نے بھی عالمی معاشی سرگرمی کو متاثر کیا تھا لیکن آئی ایم ایف کے ساہوکاروں نے کورونا کی وبا اور عالمی اقتصادی بحران کے باوجود رعایتیں دینے سے انکار کردیا۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آئی ایم ایف کے حکام براہِ راست احکامات پر عمل درآمد کا جائزہ لے رہے ہیں، وہ اس حد تک آگئے ہیں کہ دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والے قرض اور اس کے استعمال پر جواب دہی کررہے ہیں۔ جب حکومت پاکستان نے قرضوں اور اس کے سود کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف سے معاہدے کی درخواست کی تھی اس وقت بھی آئی ایم ایف کی جانب سے اعتراض آیا تھا کہ پاکستان ہم سے قرض لے کر چین کو اپنا قرضہ ادا کرے گا۔ کورونا کی وبا کے بعد بڑے پیمانے پر تباہی کے پیش نظر پاکستان کی جانب سے رعایتوں کی درخواست کو بھی نظرانداز کردیا۔ حالانکہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا عالمی رہنمائوں نے براہ راست مشاہدہ کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس پاکستان میں ہونے والی تباہی پر دنیا کو متوجہ کیا تھا۔ اس مسئلے پر بین الاقوامی کانفرنس بھی کی گئی، لیکن یہ کانفرنس صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور آئی ایم ایف پاکستان کے گرد اپنا شکنجہ کستا جارہا ہے۔ اب آئی ایم ایف کا حکم ہے کہ ڈالر لائو۔ ابھی تازہ حکم یہ آیا ہے کہ 30 جون تک زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب 20 کروڑ تک لانا ہوں گے۔ حکومت اب تک کوئی طریقہ دریافت نہیں کرسکی ہے کہ ڈالر کے ذخائر میں اضافہ ہو، درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے سے کرنسی کا خسارہ کم ہوتا ہے لیکن اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایل سی کھولنے کے لیے بھی اسٹیٹ بینک کے پاس ڈالر نہیں ہیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ دوست ممالک سے ایک مخصوص مدت کے لیے ڈالر لے کر اپنے ذخائر کو مستحکم کرے، تیسرا راستہ یہ ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی قانونی راستوں سے اپنی ترسیلات بھیجیں، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے تارکین وطن پاکستانیوں کی باضابطہ ترسیلات بھی متاثر ہوئی ہیں۔ کرنسی کی متوازی بلیک مارکیٹ بھی بن چکی ہے۔ اس میں اضافہ ہورہا ہے، اسی سلسلے میں عالمی ادارے کی یہ رپورٹ ایک ایسے پہلو کی نشاندہی کرتی ہے جس پر معاشی ماہرین کی نظر نہیں ہے یا حالات کے دبائو نے اس مسئلے پر سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا ہے۔ عالمی زرعی و مالیاتی نظام پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے بلوم برگ نے رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان سے یومیہ 50 لاکھ ڈالر افغانستان منتقل ہورہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تاجر اور اسمگلر پاکستان سے یومیہ 50 لاکھ ڈالر افغانستان بھیج رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرنسی کا خلاف ضابطہ اور غیر قانونی ترسیل کا نظام موجود ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت بڑھتی جارہی ہے، پاکستانی کرنسی کمزور ہورہی ہے، افغانستان دنیا کا پسماندہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ 40 سال سے جنگوں کی تباہ کاری کا سامنا کرچکا ہے، اس کی کرنسی پاکستان کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوچکی ہے۔ امریکا نے افغانستان کے بیرون ملک اثاثے منجمد کردیے ہیں اس کے باوجود افغانستان کی حکومت کے مرکزی بینک کے پاس اپنے ملک کی معاشی ضروریات کے لیے کافی ڈالر موجود ہیں۔ صورت یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے صرف ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کے لیے مذاکرات نہیں گداگری کررہی ہے، قوم کو حکمرانوں پر اعتماد ہوتا نجی شعبے کے ذریعے ہی پاکستان زرمبادلہ کے ذخائرمستحکم کرسکتا تھا، سب سے پہلے حکمران خاندانوں کا فرض ہے کہ وہ بیرون ملک جمع ڈالر پاکستان میں لائیں تا کہ کرنسی کے بحران سے نکلا جائے اور عوامی بہبود کے اقدام کیے جائیں۔ نجی سطح پر ہونے والی تجارت کو بھی باضابطہ بنانے کی ضرورت ہے۔