فیول ایڈجسٹمنٹ مستقل ختم کیا جائے

641

لاہور ہائی کورٹ نے بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز سمیت دیگر سرچارجز کی وصولی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ عدالت نے حکومت کو متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اوور چارجنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے نیپرا کو ہدایت کی گئی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں اس مسئلے پر 3659 درخواستیں زیر سماعت تھیں عدالت نے دس اکتوبر 2022ء کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اس کا فیصلہ سناتے ہی عدالت نے تمام درخواستوں کو منظور کرلیا اور فیول ایڈجسٹمنٹ سمیت تمام چارجز کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ عدالت عالیہ نے تمام زرعی اور گھریلو کنکشن پر فیول ایڈجسٹمنٹ کو خلاف قانون قرار دیا اور کہا کہ پانچ سو یونٹ تک گھریلو صارفین کی سبسڈی بھی برقرار رکھی جائے۔ عدالت نے حکومت کو جو حکم دیا ہے کہ متبادل ذرائع سے بجلی تیار کریں یہ حکم نہ ماننے کی وجہ سے تو بجلی کمپنیاں اور سرکاری ادارے فیول ایڈجسٹمنٹ کا آسان حربہ استعمال کررہے ہیں۔ ابھی عدالت عالیہ نے حکم جاری کیا ہے حکمرانوں کا ردعمل اس پر عمل کرنے والا تو ہرگز نہیں ہوگا۔ یا تو وہ کوئی چور دروازہ نکالیں گے یا پھر اپیل پر چلے جائیں گے۔ اس کے اطلاق کے بارے میں بھی وضاحت ہونی چاہیے۔ پاکستان میں تو احکامات بھی اسی طرح جاری ہوتے ہیں کہ فلاں فلاں حکم جاری ہوتے ہی اس کے ساتھ استثنا کی فہرست آجاتی ہے۔ عدالت عالیہ کو یہ حکم بھی دینا چاہیے کہ جو اضافی رقوم حاصل کی گئی ہیں وہ صارفین کو واپس دلوائی جائیں۔اور فیول ایڈ جسٹمنٹ اور دیگر چارجزہمیشہ کیلئے ختم کیے جائیں۔ تاخیر سے وصول کیے گئے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز یوں بھی غیر قانونی ہیں کہ صارف اگر جنوری میں بل ادا کرچکا اس کے بعد جون جولائی سے اس سے جنوری تا اپریل یا اسی قسم کے مہینوں کے بل وصول کرلیے جائیں تو یہ زیادتی ہے۔ جنوری فروری میں بل ادا کرنے والا مکان بیچ کر یا کرایہ دار مکان خالی کرکے چلا جاتا ہے اور نیا آنے والا پچھلے حساب میں پیسے دینے کا پابند کیوں ہوجائے۔ عام طور پر مارکیٹ میں طریقہ رائج ہے کہ مکان کی خریدفروخت یا کرایہ پر دینے اور لیتے وقت تمام یوٹیلیٹی بلز کی ادا شدہ کاپیاں لگائی جاتی ہیں لیکن اس طریقہ کار کی وجہ سے تو کبھی کوئی بل ادا شدہ تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک استثنا کی بات ہے تو حال ہی میں آئی ایم ایف نے گریڈ سترہ سے اوپر کے تمام سرکاری افسران اور بیوروکریٹس کے اثاثے ظاہر کرنے کی شرط رکھی لیکن جو حکمنامہ جاری ہوا اس میں عدلیہ اور فوج کو استثنا مل گیا۔ یہ استثنا بھی ختم ہونا چاہیے اگرچہ اس کی زد میں عدلیہ پر بھی پڑتی ہو اسے اس کو بھی ختم کرنا چاہیے۔ عدالت عالیہ لاہور کی جانب سے یہ فیصلہ اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ ملک کے حالات جس نہج پر جارہے ہیں اور معاشی تباہی کی جو خبریں روز آرہی ہیں کہ ملک آج ڈیفالٹ ہوا کہ کل اور مہنگائی کے طوفان نے تو عوام کو پہلے ہی ڈیفالٹ کر رکھا ہے۔ عدالت عالیہ کا فیصلہ تازہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ بجلی کی بڑھتی قیمتیں ناقابل برداشت ہوجائیں گی۔ معاشرے کو اقتصادی موت سے بچانے کے لیے خصوصی اور ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔ صارفین کی گنجائش سے زیادہ ٹیرف نہ رکھا جائے۔ عدالت نے توجہ دلائی ہے کہ نیپرا یہ توجہ دے کہ کمپنیاں بھاری منافع نہ کمائیں۔ مالی بوجھ کمپنیوں پر جائز تناسب سے تقسیم کیا جائے۔ اور لائن لاسز کی بنیاد پر اوور چارجنگ بھی بند کی جائے۔ یہ بھی ایک تماشا ہے کہ لائن لاسز جس علاقے میں ہوں، اس علاقے پر اس نقصان کو مساوی تقسیم کرکے صارفین پر جرمانہ تھوپ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ لائن لاسز یا بجلی کی چوری وغیرہ میں خود اداروں کے لوگ ملوث ہوتے ہیں اس کا بوجھ بھی صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے۔ کراچی کے بجلی صارفین بھی کے الیکٹرک سے بہت پریشان ہیں۔ کیا عدالت عالیہ لاہور کے فیصلے پر کے الیکٹرک بھی پابند ہوگی کہ وہ اس پر عمل کرے۔نیپراکو ہدایات تو دی گئی ہیںلیکن اس ادارے پر تو خود سوالات ہیں وہ خود بھی کمپنیوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اور انہیں بھاری منافع کھانے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔