سیاسی انتشار میں اضافہ

403

قومی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے، کہا جارہا ہے کہ مکمل تباہی اور فنا سے بچنے کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ میثاق معیشت کی باتیں بھی کی جاتی رہی ہیں، یعنی اہم قومی اور ملّی مسائل میں اتفاق رائے ضروری ہے۔ اس کے باوجود سیاسی انتشار اور غیر ضروری محاذ آرائی بڑھتی جارہی ہے۔ تحریک عدم اعتماد اور نئی مخلوط حکومت قائم ہونے کے بعد سیاسی بحران کی پیچیدگیوں میں اضافہ ہورہا ہے، اس وقت سوال یہ ہے کہ نئے انتخابات کب ہوں۔ یہ ایسا مسئلہ نہیں تھا کہ جس پر اتفاق رائے نہ ہوسکے، لیکن سیاسی قوتوں کے ساتھ ریاستی ادارے بھی ساکھ سے محروم ہوچکے ہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان تنازعات سے بچنے اور سیاسی امور پر اختلاف رائے مسائل کو حل کرنے کے لیے جتنے بھی اقدامات کیے گئے وہ ناکام ہوچکے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی اور اصل وجہ نیتوں کا فتور اور قول اور فعل کا تضاد ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ اس بات پر تو اتفاق ہے کہ حکومت کو آئینی جواز منتخب اداروں کے ذریعے حاصل ہوگا اور عوام اپنی رائے سے طے کریں گے کہ ان کی نمائندگی کرتے ہوئے کسے حق حکمرانی حاصل ہوگا۔ لیکن یہ دعویٰ کرنے والے اس بات کی ضمانت دینے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ دھاندلی سے پاک شفاف انتخابات کی منزل سے ابھی تک دور ہیں، انتخابات کے عمل میں ہر سطح پر شفافیت کے بارے میں شبہات موجود رہے ہیں۔ برسراقتدار حکومت پر اعتماد نہیں رہا کہ وہ شفاف انتخابات کرائے گی اس تنازعے سے بچنے کے لیے نگراں حکومت کے تصور پر اتفاق کیا گیا، الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق کو چیئرمین کی نامزدگی کے لیے ضروری قرار دیا گیا، لیکن الیکشن کمیشن پر بھی اتفاق رائے یقینی نہیں ہوسکا۔ انتخابات کو آزادانہ اور ہر فریق کے لیے محفوظ رکھنے کے لیے فوج اور عدلیہ کی نگرانی کے مطالبے کیے گئے لیکن پولیس اور انتظامیہ کا کردار تو مشکوک تھا ہی، عدلیہ اور فوج کی ساکھ بھی مجروح ہوچکی ہے، یہی مسئلہ احتساب کے ادارے کے بارے میں پیش آیا۔ یہ حقیقت ہے کہ مسئلہ بدعنوانی، رشوت، کمیشن خوری سے بھی پستی میں گر چکا ہے اور حکومتی اختیارات اور وسائل پر مافیائوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ جس نے طرزِ حکمرانی کو استحصالی بنا دیا ہے اور ان کا احتساب ممکن نہیں ہوسکا۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر بدعنوانی کا الزام عائد کرتی رہی ہیں۔ ایک حکومت کے دور میں مخالف جماعت کے رہنمائوں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات دائر کیے گئے اور اسے سیاسی دبائو کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس مسئلے سے نکلنے کے لیے احتساب کے اداروں کے سربراہ کے تقرر کے لیے اتفاق رائے کی تجویز بھی متنازع بن چکی ہے۔ سابق مخلوط حکومت کی معزولی کے بعد نئی مخلوط حکومت کے قیام کے نتیجے میں سیاسی استحکام کی توقع تھی لیکن سیاسی انتشار اور محاذ آرائی میں تیزی آئی۔ پاکستان کی سیاست پارلیمان سے نکل کر میدان میں آگئی۔ دو بڑی جماعتیں جو ماضی میں حریف تھیں وہ ایک جگہ بیٹھ گئی ہیں۔ ان کے ساتھ تقریباً تمام علاقائی اور مذہبی جماعتیں شامل ہیں، اتنی بڑی جماعتوں کا اتحاد و قومی اتفاق رائے کا سبب بننا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا، سابق وزیراعظم اپنی معزولی کے بعد حکومت گرانے کی مہم تو کامیاب نہیں بنا سکے لیکن ان کے سیاسی حملوں سے مخلوط اتحادی جماعت کا سیاسی قلعہ لرز کر رہ گیا ہے۔ دونوں فریقوں کی جانب سے غیر سیاسی فیصلے کیے گئے ہیں۔ دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں۔ حکومتی اتحاد نے تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے استعفے منظوری سے روک لیے تھے، لیکن اب اچانک دو مرحلوں میں قومی اسمبلی کے ارکان کے استعفے بھی منظور کرلیے ہیں۔ ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ نگراں وزیراعظم کے تقرر کے لیے اسمبلی کے ایوان میں واپس آکر قائد حزب اختلاف کا منصب سنبھال لیں گے۔ پنجاب میں پارلیمانی ایوان نگراں وزیراعلیٰ کے تقرر پر اتفاق نہیں کرسکا تھا تو معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے نے ادارے کی غیر جانبداری پر سوال اٹھا دیے۔ حکومت نے آئینی ادارے کے تقدس کے نام پر گرفتاریوں اور مقدموں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ یہ عمل بھی سیاسی انتشار میں اضافہ کررہا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سیاسی جماعتیں تو اپنی اخلاقی ساکھ سے محروم تھیں، وہ ادارے جن کا غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہونا آئین کا تقاضا ہے وہ بھی اپنے آئینی فرض ادا کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ زندہ قوموں کی یہ روش نہیں ہوتی۔