…صبح اُمید کی سمت پابجولاں چلو

531

عجب امید وبیم کی کیفیت میں مبتلا اہل کراچی کہ کل تک جن کی قسمت سے انتخابات منتخب کر دیے گئے تھے اور ہر آتے جاتے چوک چوراہوں پر کھڑے، محافل وتقاریب میں، درس وتدریس کے دوران یہی سوال کیا جاتا انتخابات نہیں ہونے والے، ایوئیں حافظ نعیم الرحمن نے پانی میں مدھانی ڈال رکھی ہے مگر الیکشن کی لسی نہیں نکلنے والی، ارے دھرنا؟ دھرنے سے کچھ نہیں ہونے والے انتخابات؟ ہائے وہ اب قیامت تک کے لیے ملتوی ہو گئے، تاریخ آ گئی؟ کیا؟ کیا کہا؟ 15 جنوری؟ ہاہا (استہزاء) اس مرتبہ بھی ملتوی ہو جائیں گے رات تک ہمارے قدموں کی تیز ہوتی رفتار پر ہنسی روکتے ہوئے کہا گیا ارے رات بارہ بجے تک اطلاع آ جائے گی ملتوی ہونے کی، صبح کا سورج اپنے ساتھ حق کی گواہی لے کر ابھرا تو چہار اطراف تازگی تھی امنگوں بھری جستجوئیں تھیں غزالان افکار کے مرغزاروں پر امید کے دیے فروزاں تھے کم ہمت والوں نے ہمت والوں سے حوصلے مستعار لیے اور حق کی گواہی دینے کو کشاں کشاں بڑھے چلے صبح جس سڑک پر ہم آزادی سے ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ تک گاڑی دوڑاتے پھر رہے تھے دوپہر بارہ بجے تک وہاں ہمارا پیدل چلنا مشکل ہو چکا تھا کیمپوں تک چائے پہنچانے کا ارادہ کیا بغیر گاڑی کے تاکہ جلد پہنچ جائیں تو حوصلوں کو مہمیز دینے والی مثل امید و رجا ہمارے آڑے آ گئیں ارے واہ تمہیں اکیلے ہی کمانے دوں نیکیاں؟ ہٹو سامنے سے چائے میں خود لے کر جائوں گی کیمپ میں، مگر باجی گیس ندارد ہم کو کوئٹہ ہوٹل سے لینی ہے، ہم بدبدائے کہ کھل کر کہنا محال تھا رعب محبت ہی ایسا تھا۔ ’’جی تو ہم بھی کوئٹہ ہوٹل سے ہی لے کر جائیں گے‘‘ شان استغنا کے آگے ہم خاموش۔
شام ڈھلے انتخابات تکمیل کے مراحل میں اب گنتی کا عمل اب اگلی دوڑ ایک پولنگ اسٹیشن پولنگ ایجنٹ بہن کو ریلیف دینے کی خاطر گنتی پر خود کھڑے کیا ہوئے دنیا اپنی تمام تر چالاکی و عیاری سے آشکار ہو گئی چار بوتھ کے نتائج کی گنتی کی جاچکی تھی مگر ان نتائج میں سے بکا ہوا انتخابی عملہ تیل نکالنے کی کوشش کر رہا تھا کبھی دائیں، کبھی بائیں طرف لڑھک کر مگر الحمدللہ، رب العالمین کے فضل و کرم سے انہیں ان کی عیاریوں اور مکاریوں میں مکمل شکست دے کر اپنے ہاتھ سے ووٹوں کی گنتی کرتے ہوئے ان کی چالوں کو ناکام بنایا اور رزلٹ ان کے ہاتھ سے لکھوا کر منہ سے بلوا کر پورے عملے کی گواہی لے کر مردانہ نظم کے سپرد کیا اور باہر نکل کر منتظر افراد کو ترازو کی فتح کی مبارک باد دی اور نعرہ لگایا کہ ’’بھائیو! عوام کا فیصلہ آ گیا ہے کہ حل صرف جماعت اسلامی‘‘۔
ہم ساری بہنیں بچوں سمیت دن بھر کی تھکان اور جیت کا ایقان لیے عشاء کے قریب گھر پہنچے تو رات گئے تک فتح کے نتائج کی خوشخبریاں دل میں سکینت طاری کرتی گئیں ادھر باطل کے ہوش اڑے ہر جگہ جماعت، ہر جگہ ترازو، یکایک کالی وردی والوں کے کالے بوٹوں کی نوک تلے گواہیاں کچلنے کے اسباب پیدا کیے گئے ہم تو شاید خاتون وہ بھی دبنگ و باپردہ خاتون ہونے کی وجہ سے اللہ کے فضل و رحمت کی چادر میں ایک پولنگ اسٹیشن پر عزت دیے گئے اور باطل پرستوں سے حق چھین کر لے آئے مگر ہمارے بھائیوں، بیٹوں کو تو زدوکوب کر کے پولنگ اسٹیشنوں سے باہر نکال کر ٹھپے لگانے شروع کر دیے بوکھلاہٹ کی انتہا تھی کہ پکڑے بھی گئے مگر ڈھٹائی کی انتہا کہ بھٹو اب بھی زندہ اور ووٹ صرف بھٹو کا۔
اب کل سے اب تک جماعت اسلامی کے پاس 118 سے زائد نشستوں کے ثبوت موجود مگر نجانے کیسی ’’گنتی‘‘ ہے کہ زندہ بھٹو کے مردہ ضمیر جیالوں کی بٹن جیسی آنکھوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی مجھے کل والے پولنگ اسٹیشن کی یاد آ گئی کہ بار بار گن کر بھی پریزائیڈنگ آفیسرز کی آنکھوں کے آگے اندھیرا گہرا ہو رہا تھا۔ شاید یہی صورت حال ہر جگہ ہو، چلیں خیر ہے دیر سے ہی سہی نتائج درست ہونے چاہئیں مگر یہاں اب صورتحال یہ ہے کہ حوصلے توڑنے والے بیانات خود جماعتیوں کی زبان سے سننے کے لیے ہی زندہ بھٹو کی مردہ ضمیر حکومت نے Delay tactics کی حکمت عملی اختیار کر کے پہلے اپنی کامیابی کے نتائج بتائے تاکہ حوصلے پست ہوں اور عوام اس کھلی لوٹ کو دہن کے جھوٹ کو مان لیں تو پھر آسانی سے بقیہ نشستوں پر شب خون مارا جائے۔
جو بھی اپنا حوصلہ پست کرنا چاہتا ہے کرے یہ اس کا انتخاب ہے ہمارا انتخاب جیت ہے۔ جو اللہ رب العزت نے کھلی ہوئی روز روشن کی طرح عیاں فتح مبین عطا کی ہے جسے مردہ ضمیر حکومت کے چھپانے سے چھپنے نہیں دیں گے ہم روتے نہیں رلاتے ہیں ہم لکھتے ہی نہیں کہتے بھی ہیں اس لیے ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں نتائج کا صبر سے انتظار کر رہے ہیں جب ان کا من مانی شدہ، کرپشن زدہ نتیجہ مکمل ہو جائے گا تو حافظ نعیم الرحمن اور دیگر اکابرین نے چونکہ چوڑیاں نہیں پہن رکھیں، چونکہ وہ دستخط شدہ نتائج کے عینی شاہدین ہیں اس دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلے پر احتجاج کریں گے تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم حق کے راستے کے راہی ہیں باطل کے آگے نہ جھکے ہیں نہ جھکیں گے ہم الیکشن کے تاخیری حربوں کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے تھے تو اب الیکشن کی کرپشن کے آگے بھی ہم ہی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر سامنے آئیں گے۔
کل جس نے کہا دھرنے سے کیا ہوگا اس نے جواب پا لیا۔ کل جس نے کہا احتجاجی مظاہرے سے کیا ہوگا اس نے جواب پا لیا۔ کل جس نے کہا جلسے جلوس سے کیا ہوگا اس نے جواب پا لیا۔ کل جو کہتے تھے الیکشن نہیں ہونے والے اس نے بھی جواب پا لیا۔ اور آج جو کہہ رہے ہیں حکومتی اعلان کے مطابق نتائج درست ہیں وہ بھی جواب پالیں گے۔ آج جو کہہ رہے کہ اعدادو شمار وہی ہیں جو جھوٹی، خائن حکومت کہہ رہی ہے وہ جھوٹی خائن، مردہ حکومت کہ جو انتخابات میں روڑے نہ اٹکا سکی تو نتائج میں اٹکانے بیٹھ گئی جو اسے سچ مانتا ہے مانتا رہے۔ ہم کل بھی ڈٹ کر کھڑے ہوئے اور اللہ کے فضل و کرم سے انتخابات کا حق چھین لیا اور اب ہم اپنی جیتی ہوئی نشستوں پر کسی مردہ یا زندہ کو ڈکیتی مارنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ حافظ کھڑا ہوگا تو کراچی اس کے ساتھ کھڑا ہوگا، حافظ پیچھے ہٹنے کا کہہ دے گا تو کراچی حکم کی تعمیل کرے گا کیونکہ کراچی جان چکا ہے کہ حافظ نعیم الرحمن کا حکم اس کی ذات کے لیے نہیں بلکہ کراچی اور اہل کراچی کی تعمیر وترقی اور بہترین مستقبل کے لیے ہے کسی کو ساتھ دینا ہے بصد شوق اس راہ پر اپنی پلکوں کے موتی سجا کر آئے اسے خوش آمدید اور جس نے محض حوصلے پست کرنے ہیں انہیں نیک دعاؤں کے ساتھ خدا حافظ ہمارا تمہارا کراچی کا حافظ نعیم الرحمن اور اس کا حافظ خدائے رب رحمن اس لیے کہہ دیجیے کہ: فتح کی سمت متحد بڑھے چلو بڑھے چلو۔