مجاہد ملت قاضی حسین احمدؒ کی یادیں

531

پاکستان کے نامور سیاستدان، تحریک اسلامی کے قائد، ممتاز دانشور اور اسلامی انقلاب کے علمبردار قاضی حسین احمد کو ہم سے جدا ہوئے دس سال ہوگئے۔ جنوری ان کی وفات کا مہینہ ہے۔ نیا سال شروع ہوتا ہے تو ان کی دل آویز شخصیت کا عکس ذہن پر چھا جاتا ہے اور ان سے ملاقاتوں اور باتوں کی ایک فلم سی ذہن میں چلنے لگتی ہے۔ اس طرح ان کی یادیں سارا سال روشن رہتی ہیں۔ قاضی صاحب سے پہلی ملاقات پشاور میں ان کے میڈیکل اسٹور پرہوئی تھی۔ یہ ان کی بھرپور جوانی کا زمانہ تھا۔ جماعت اسلامی پشاور کی ذمے داری ان کے سپرد تھی۔ وہ اس ذمے داری کو بھی نبھا رہے تھے اور اپنی گزر اوقات کے لیے ایک میڈیکل اسٹور بھی کھول رکھا تھا۔ اسے بھی کچھ وقت دیتے تھے لیکن زیادہ وقت ان کا جماعتی کاموں میں صرف ہوتا تھا۔ افغانستان اُن دنوں ایک خاموش تبدیلی سے گزر رہا تھا اور حکمت یار سمیت بہت سے اسلامی ذہن رکھنے والے افغان نوجوان اپنے ملک کو سوویت یونین کے اثر سے نکالنے کے لیے کوشاں تھے۔ ابھی سوویت یونین نے افغانستان پر براہِ راست حملہ نہیں کیا تھا لیکن اس نے افغان بادشاہ ظاہر شاہ کو معزول کرکے وہاں اپنا کٹھ پتلی حکمران بٹھا رکھا تھا جس کے خلاف زیرزمین ایک تحریک چل رہی تھی۔ اس تحریک کو منظم کرنے میں قاضی صاحب نے نہایت فعال کردار ادا کیا۔ وہ نہایت خاموشی کے ساتھ باقاعدگی سے افغانستان جاتے اور تحریک کے ذمے داران کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے تھے پھر جب سوویت یونین نے افغانستان پر باقاعدہ فوج کشی کردی تو سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد شروع ہوگیا اس جہاد کو منظم کرنے اور آگے بڑھانے میں بھی قاضی صاحب کا کلیدی کردار تھا۔ قاضی صاحب نے پشاور میں اپنا ذاتی مکان افغان مجاہدین کے سپرد کردیا تھا جہاں وہ آکر ٹھیرتے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔ جنرل ضیا الحق کی حکومت تو بہت بعد میں اس جہاد میں شریک ہوئی۔ قاضی حسین احمد ابتدا ہی سے اس جہاد میں اپنا قائدانہ کردار ادا کررہے تھے۔
سید مودودیؒ خرابی صحت کی بنا پر امارت کی ذمے داری سے سبکدوش ہوئے اور انہوں نے ارکان جماعت کو باقاعدہ خط لکھ کر مطلع کیا کہ وہ آئندہ انہیں امیر جماعت منتخب نہ کریں تو ارکان جماعت نے اپنے ووٹ کے ذریعے یہ ذمے داری میاں طفیل محمد کے سپرد کردی جو اس سے پہلے جماعت کے سیکرٹری جنرل کے منصب پر کام کررہے تھے اور سید مودودیؒ کے دست راست سمجھے جاتے تھے۔ میاں صاحب کی امارت کی ذمے داری سنبھالنے کے بعد سیکرٹری جنرل کا منصب خالی ہوگیا۔ چناں چہ اس کے لیے میاں صاحب کی نظر انتخاب قاضی حسین احمد پر پڑی اور انہیں پشاور سے لاہور بلالیا۔ قاضی صاحب نے اس منصب کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور جماعت اسلامی کو ہر سطح پر منظم اور فعال بنانے کے لیے ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ انہوں نے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ملک گیر دورہ کیا۔ ہر صوبے، ہر ضلع اور ہر شہر میں گئے۔ ارکان اور کارکنوں سے براہِ راست ملاقاتیں کیں، ان کے اجتماعات سے خطاب کیا اور انہیں عوام میں کام کرنے کے لیے گائیڈ لائن فراہم کی۔ قاضی صاحب کو نوجوانوں سے بڑی اُمیدیں تھیں لیکن انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ جماعت اسلامی کا کڑا نظم نوجوانوں کے پَر کتر دیتا ہے۔ اس لیے انہوں نے نوجوانوں کی معاون تنظیمیں قائم کیں اور انہیں بازوئے شمشیر زن کی حیثیت سے ہمیشہ فرنٹ لائن پر رکھا۔ انہوں نے پہلے پاسبان قائم کی، پھر ’’شباب ملی‘‘ کا تجربہ کیا۔ ان دونوں تنظیموں نے اپنے اپنے وقت پر بہت کام کیا اور مخالفین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔
سید مودودیؒ کی طرح میاں طفیل محمد بھی بیماری سے لاچار ہو کر امارت کی ذمے داری سے سبکدوش ہوئے تو ارکان نے قاضی حسین احمد کو امیر جماعت اسلامی منتخب کرلیا۔ امارت کا منصب سنبھالنے کے بعد قاضی صاحب کے جواہر اور کھل کر سامنے آئے۔ انہوں نے سب سے پہلے قومی سطح پر مختلف فرقوں اور مسالک کے درمیان مذہبی ہم آہنگی قائم کرنے پر توجہ دی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک میں شیعہ سنی فسادات کی لہر آئی ہوئی تھی اور بیرونی عناصر اس آڑ میں ایک دوسرے کے خلاف اپنی طاقت آزما رہے تھے۔ قاضی صاحب نے مختلف اور متحارب مذہبی عناصر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اس پلیٹ فارم کو ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ کا نام دیا گیا۔ قاضی صاحب نے سنی اور شیعہ علما سے ذاتی طور پر رابطہ کرکے انہیں اس بات کا قائل کیا کہ اگر وہ اسی طرح لڑتے رہے تو ان کی ہوا اُکھڑ جائے گی اور ان کا مشترکہ دشمن انہیں بڑی آسانی سے شکار کرلے گا کیوں کہ اس کے نزدیک وہ سب مسلمان اور اسلام کے نام لیوا ہیں۔ قاضی صاحب کی یہ کوشش نتیجہ خیز ثابت ہوئی اور ملک میں مذہبی کشیدگی کا خاتمہ ہوگیا ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ آج بھی اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ قاضی صاحب کے دل میں پوری اُمت مسلمہ کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ دُنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر کوئی آفت آتی یا ان میں کوئی اختلاف پیدا ہوتا تو وہ تڑپ اُٹھتے تھے اور فوراً ان کی مدد کو پہنچتے تھے۔ بوسنیا کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی تو وہ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے فوراً بوسنیا پہنچ گئے۔ سوڈان میں لیڈروں کے درمیان تنازع پیدا ہوا تو قاضی صاحب نے صلح صفائی کے لیے فوراً اپنی خدمات پیش کردیں۔ افغانستان سے روس کے انخلا کے بعد وہ افغان قائدین اور دھڑوں کو متحد کرنے کی بھی آخر وقت تک کوشش کرتے رہے۔
قاضی صاحب اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ مقبوضہ کشمیر صرف جہاد سے آزاد ہوسکتا ہے جس طرح افغان جہاد کے ذریعے روس کو افغانستان سے نکالا گیا ہے، اسی طرح بھارت کو کشمیر سے نکالا جاسکتا ہے۔ چناں چہ جب مقبوضہ کشمیر میں جہاد کا غلغلہ بلند ہوا تو قاضی صاحب نے آگے بڑھ کر اس کی حمایت کی اور دامے درمے قدمے سخنے ہر اعتبار سے اس کی پشت پر کھڑے ہوگئے۔ افغانستان میں روس کی عبرت ناک شکست سے بھارت بھی گھبرایا ہوا تھا جب کہ کشمیری مجاہدین کے حوصلے بلند تھے۔ قاضی صاحب نے 5 فروری کو اہل کشمیر کے ساتھ ’’یوم یکجہتی‘‘ منانے کا اعلان کیا تو پوری قوم نے پُرجوش انداز میں اس کی تائید کی، یہاں تک کہ حکومت کو بھی اس دن کو قومی تعطیل قرار دینا پڑا۔ اس وقت پاکستان میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی، وہ بھارت کی محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم آئی کے گجرال کا بیان ہے کہ نواز شریف انہیں ہاٹ لائن پر رات گئے کنٹرول لائن کے راستے مجاہدین کی نقل و حرکت سے آگاہ کیا کرتے تھے، اس طرح انہوں نے جہاد کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی پوری کوشش کی اور قاضی صاحب کی نظروں میں گر گئے۔ جہاد کشمیر کو اصل نقصان نائن الیون سے ہوا، امریکا نے اس کی آڑ میں پہلے افغانستان پھر عراق اور اس کے بعد پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف اپنی جارحانہ سرگرمی شروع کردی۔ پاکستان میں اس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ انہوں نے امریکا کی ایک ٹیلی فون کال پر خود کو امریکا کے آگے سرنڈر کردیا اور افغانستان پر جارحیت کے لیے پاکستان کے فضائی، بحری اور زمینی وسائل امریکا کے حوالے کردیے۔ اس موقع پر سیاسی قائدین کو اعتماد میں لینے کے لیے ان کا اجلاس طلب کیا جس میں قاضی صاحب کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت شدید بحران اور سلامتی کے شدید خطرے کا سامنا ہے، اس بحران اور خطرے سے ملک کو نکالنے کے لیے انہوں نے امریکا کا ساتھ دینے اور افغانستان کے خلاف امریکا کو فضائی اڈے اور لاجسٹک سپورٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے اپنے فیصلے کے حق میں سیاسی قائدین کی طرف دیکھا تو قاضی صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے اور جنرل پرویز مشرف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب آپ خود کہہ رہے ہیں کہ ملک کو شدید بحران کا سامنا ہے تو آپ نے یہ بوجھ اپنے کندھوں پر کیوں اُٹھایا ہے۔ اس بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ آئین بحال کردیں، قومی اتفاق رائے کی سویلین حکومت بنادیں، فوج کو اپنے کام کے لیے فارغ کردیں اور آزاد و خود مختار الیکشن کمیشن کے تحت منصفانہ انتخابات کرادیں تا کہ پوری قوم اس بحران کا مقابلہ کرنے میں شریک ہوسکے‘‘۔ قاضی صاحب کا یہ خطاب سن کر جنرل پرویز مشرف کا منہ فق ہوگیا اور انہوں نے اجلاس برخاست کردیا۔ قاجی صاحب یہی بات عام جلسوں میں بھی کہتے رہے جس کے نتیجے میں انہیں قید و بند کی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔
قاضی صاحب نے متحدہ مجلس عمل کی صورت میں ہم خیال سیاسی جماعتوں کا اتحاد بھی قائم کیا اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس اتحاد نے عام انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ متحدہ مجلس عمل جنرل پرویز مشرف کو صدرت سے بے دخل کرنے، ملک میں ایک مستحکم جمہوری نظام قائم کرنا چاہتی تھی، جب اس مقصد میں اسے ناکامی ہوئی تو قاضی صاحب رضا کارانہ طور پر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگئے۔ انہوں نے جماعت اسلامی میں اپنے پیش روئوں کی روایت پر عمل کرتے ہوئے خرابی صحت کی بنا پر امارت کی ذمے داری سنبھالنے سے بھی معذرت کرلی۔ وہ جب تک زندہ رہے ایک مجاہد کی سی زندگی ان کا طرئہ امتیاز رہی۔ ان کے انقلابی نظریات سے اپنوں میں خفگی بھی پیدا ہوئی لیکن وہ علامہ اقبال کے ان شعروں کے مصداق تھے۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے۔