عدلیہ کا رویہ

586

عزت مآب عمر عطا بندیال چیف جسٹس آف پاکستان نے نیب کی ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کی، دوران سماعت فرمایا کہ ہمارا معاشرہ کرپشن کی بیماری کا شکار ہے، دلائل کے دوران تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی کرپشن وجود میں آگئی تھی، گویا وکیل صاحب پاکستان کے تمام مشاہیر کو کرپٹ ثابت کر کے اپنے کلائنٹ کی قانون شکنی کو بت شکنی ثابت کرنا چاہتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بابائے قوم محمد علی جناح، شہید ملت لیاقت علی خان، دیگر مشاہیر کو کرپٹ کہنے والوں کو آئین کے تحت کیا سزا دی جاسکتی ہے کہ قومی ہیروز کو کرپٹ کہنا کوئی بھی باشعور قوم برداشت نہیں کر سکتی مگر بدنصیبی یہی ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما چار برسوں تک تمام مشاہیر کو چور، ڈاکو اور لٹیرا کہتے رہے مگر کسی کی قومی حمیت نے جوش نہ مارا خدا جانے عمران خان اور ان کے سرپرستوں پر کیا جادو کر دیا ہے کہ ہر بات پر آمناو صدقنا کہنا اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔
واجب الاحترام چیف جسٹس صاحب نے درست فرمایا ہے کہ سیاسی فیصلے عدالت کی ذمے داری نہیں، اگر عدالت سیاسی معاملات پر فیصلے کرنے لگے تو متنازع معاملات میں اضافہ ہوتا رہے گا، اور یہ ایک ایسا رواج بن جائے گا جو کسی بھی صورت میں ملک وقوم کے لیے سود مند نہیں ہوگا، سماعت کے دوران چیف صاحب نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ ضروری نہیں کہ نیب سے متعلق قانون کو کالعدم قرار دے دیا جائے کیونکہ اس میں بہتری کا پہلو بہت واضح اور نمایاں ہے، عدالت کے پاس یہ آپشن بھی موجود ہے کہ قانون کو آئین کے مطابق ہی آگے بڑھائے، زیر سماعت مقدمہ کی سماعت سیاسی تنازعے پر رکھی ہوئی ہے، چیف جسٹس نے فرمایا کہ آئین کا مطلب پاکستانی عوام ہیں۔ اعتماد ہی تمام معاملات کا مرکز و محور ہے، تمام عوامی عہدیدار قابل احتساب ہیں، جج صاحبان کو کرپشن کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے کیونکہ یہ عوامی اعتماد کے ضامن ہوتے ہیں، چیف صاحب کا ارشاد گرامی ہے کہ عدلیہ بھی قابل احتساب ہے۔
واجب الاحترام چیف جسٹس صاحب نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس سے انکار کی گنجائش تو نہیں مگر یہ سوچا جاسکتا ہے کہ اگر ہمارے آئین میں عوامی عہدیدار قابل احتساب ہیں تو ان کا احتساب کون کرے گا؟، موجودہ صورتحال یہ ہے کہ جو شخص بھی اہم عوامی عہدے پر براجمان ہے، عوام اس کے دست نگر ہیں، یہ ستمگری عدلیہ کے علم میں بھی ہے مگر چشم پوشی کرتی رہتی ہے، آئینی طور پر وہ خود بھی قابل احتساب ہے سو احتساب سے درگزر ہی کیا جاتا ہے، اگر دیانتداری اور ہوش مندی سے عدالتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے اور یہ تجزیہ کریں تو وطن عزیز کی عدلیہ ہی سب سے زیادہ قابل احتساب ثابت ہوگی کیونکہ وکیل قانونی موشگافیوں اور تاخیری حربوں سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنے رہتے ہیں، اور جج صاحبان اپنے دور وکالت کی نقاب کشائی سے بچنے کے لیے وکلا اور بار کونسل کے سامنے سرنگوں ہونے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، یہ کیسی حیرت انگیز حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں جو شخص وکیل کی فیس ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ جسے چاہے عدالتوں میں دھکے کھانے پر مجبور کر سکتا ہے۔
طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج ہونے والے مقدمات کو اپیل در اپیل کا شیطانی چکر بنانے کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے، قابل غور بات یہ ہے کہ جو مقدمہ عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج ہو جاتا ہے اس کی اپیل کی سماعت کیوں کی جاتی ہے، علاوہ ازیں ایسے مقدمات کی بھی کمی نہیں جو قانونی تقاضوں کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہوتے ہیں مگر کوئی بھی ایسا میکنزم موجود نہیں جو غلط فیصلوں کو غلط ثابت کر سکے۔
یہ کیسا المیہ ہے کہ سول کوٹ اور سیشن کورٹ میں خارج ہونے والے مقدمات عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے لاڈلے بن جاتے ہیں، حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ چھوٹی عدالتوں میں کلائنٹ کو بولنے کی آزادی ہوتی ہے مگر ہائی کورٹ میں بولنے کی اجازت نہیں دی جاتی، اگر کوئی کلائنٹ فریاد کرنے لگے تو کہا جاتا ہے تم بولنے کا حق کھو چکے ہو کیونکہ تم نے یہ حق اپنے وکیل کو دے دیا ہے، اس لیے خاموش رہا کرو ورنہ… توہین عدالت کی زد میں آسکتے ہو۔
عزت مآب چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا ارشاد گرامی ہے کہ آئین کا مطلب پاکستانی عوم ہیں مگر حقائق اس کے برعکس ہیں، کیونکہ آئین صرف بااختیار شخصیات ہی کو ریلیف دیتا ہے اور عوام پر لیفٹ اوور کے ہتھوڑے برساتا رہتا ہے، پہلے لا الہٰ الا اللہ کا مطلب پاکستان بتایا جاتا تھا اب آئین کا مطلب پاکستانی عوام بتایا جارہا ہے۔ خدا خیر کرے۔