پنشنرز کے مسائل

607

پنشنرز کے مسائل کو سمجھنا ہو تو اپنے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین والدین کے چہرے دیکھ لیے جائیں، ان کے گھروں میں بیٹھی بیٹیوں کو دیکھ لیا جائے تو سارے مسائل سمجھ میں آجائیں گے، ہم ان کے مسائل پنشنرز کے مسائل سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں جب کہ یہ اصل میں ہمارے ریٹائر سرکاری ملازمین والدین کے مسائل ہیں، اب جن کے ہاتھ میں اختیار ہے اور وہ پالیسی ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے ہیں، انہیں بھی کل ریٹائر ہونا ہے، ہمارے سامنے ریٹائرڈ ملازمین کے مسائل کا ایک انبار ہے، لیکن پی ٹی سی ایل کے ریٹائرڈ ملازمین کے مسائل کا کوہ گراں کھڑا ہے، یہ بے چارے اس قدر بے چارے ہیں کہ جن ہاتھوں پر یہ اپنا لہو تلاش کر رہے ہیں کہ ان تمام ہاتھوں نے دستانے پہن رکھے ہیں۔ پی ٹی سی ایل کے ریٹائرڈ ملازمین کے لیے جس کمیٹی نے پالیسی تیار کی تھی اس کمیٹی کے چیئرمین کہاں ہیں؟ اس کمیٹی ارکان کہاں ہیں، کیا وہ آج کسی کو منہ دکھانے کے قابل ہیں؟ ان کے چہرے پر اپنے فیصلوں پر شرمندگی کبھی نہیں دیکھی گئی۔
دنیا اچھے اور برے کرداروں سے بھری پڑی ہے، ایک طرف یہ کمیٹی اور دوسری جانب نادرا، بھلا ہو نادرا کا جس نے ایک فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلہ پنشن سے متعلق تو نہیں البتہ کسی حد تک ریلیف ہے، بزرگ شہریوں کی بہبود کے حوالے سے نادرا کا یہ فیصلہ حوصلہ افزا ہے کہ انگلیوں کے نشانات کی تصدیق میں پیش آنے والے دیرینہ مسئلے کا جدید ترین حل تلاش کیا جائے بلکہ یہ نظام متعارف کرادیا گیا ہے ساٹھ سال سے زائد عمر کے معمر افراد کو بالخصوص بینکوں میں بائیو میٹرک تصدیق میں مشکل پیش آنے کی صورت میں چند خفیہ سوالات پوچھے جائیں گے جن کے درست جوابات دینے پر ان کی تصدیق فوری کر دی جائے گی۔ یہ خفیہ سوال پی ٹی سی ایل کی اس کمیٹی کے ہر رکن سے پوچھ لیا جائے، جس نے اس وقت محض اپنے چیئرمین کی خوشنودی کے لیے پی ٹی سی ایل کے ریٹائرڈ ملازمین کے گلے پر تیشہ چلایا، رندا چلانے کی بات شہباز گل نے تو بعد میں کی، پہلے یہ کام یہی کمیٹی انجام دے چکی تھی، اس کمیٹی نے شرم ناک کام کیا جس کی وجہ سے آج تک پی ٹی سی ایل کے ریٹائر ملازمین دھکے کھا رہے ہیں۔
نادرا کے فیصلے کی تعریف کرنی چاہیے کہ بزرگ شہریوں کو مسائل کا سامنا رہتا ہے ہر چند ماہ بعد کارڈ کو ری ایکٹیویٹ کرنے کے لیے انگوٹھے اور انگلیوں کے نشانات متعلقہ مشین پر نمایاں نہ ہونے کی صورت میں بھی انہیں پریشانی رہتی ہے انہیں ہر چھے ماہ بعد بائیو میٹرک تصدیق کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اب تصدیقی عمل کو زیادہ منظم کرنے سے بزرگ شہریوں کی آسانی میں اضافے کی توقع ہے۔ قومی بچت اسکیموں کے منافع کی شرح میں اضافے کے حالیہ فیصلے سے معمر افراد سمیت تمام سرٹیفکیٹ ہولڈرز کو فائدہ ہو گا ضرورت اس بات کی ہے کہ بزرگوں کو علاج معالجے کی آسانیاں، سستی ادویات اور رعایتی شرح پر آرام دہ سفر کی سہولتیں فراہم کی جائیں یہ یہی بزرگ ہمارری لائبریریاں ہیں جن سے ہم تاریخی واقعات کی روشنی حاصل کر سکتے ہیں، ورنہ جنوں پریوں کی کہانیوں کے علاوہ جادوگروں، جادوگرنیوں کی کہانیاں تو آج کل بہت عام ہیں، سیاست بھی ان دنوںجادو ٹونے سے چل رہی ہے، جس سے پُر اسرار کہانیاں جنم لیتی ہیں یہ پر اسرار کردار تو ماضی میں ہماری سیاست میں موجود رہے ہیں جیسا کہ غلام محمد جیسا گورنر جنرل جو ذہنی طور پر تقریباً معذور تھا اس کی گورننس کیسی تھی، تاریخ کی گواہی کافی ہے، اس کی بات کسی کو بھی سمجھ میں نہیں آتی تھی اور جو پنجابی میں بڑی بڑی گالیاں نہایت روانی سے دیا کرتا تھا، عمران خان کے لانگ مارچ کو تو وزیر آباد میں ایک واقعہ کا سامنا کرنا پڑا، اس کے بعد ایک نئی محلّاتی سازش شروع ہوئی مگر کردار نہیں مل رہے، بہر حال بات کسی اور طرف نکل گئی، سیاست میں ٹشو پیپرز کا نام بہت سن رکھا ہے، جے اے رحیم بھی اس قطار میں نظر آتے ہیں جس قطار میں ان دنوں جہانگیر ترین اور علیم خان کھڑے نظر آتے ہیں۔ ٹشو کی طرح استعمال کرکے پھینک دینا، محسنوں کے خلاف سازشیں کرنا، عمران خان نے اس معاملے میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا، بس ہم تو یہی کہنا چاہتے ہیں کہ بزرگوں اور ریٹائرڈ ملازمین کو والدین کا درجہ دیں اور انہیں ٹشو پیپر نہ سمجھا جائے، نادرا کے اچھے فیصلے پر اس کی تعریف بنتی ہے۔