چین کے ساتھ سعودی عرب کی دوستی پر امریکا کی دھمکی

475

چین کے صدر شی جن پنگ سعودی عرب کے تین روزہ دورے پر مشرق وسطیٰ میں تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو گہرا کرنے کی امید لے کر گئے تھے۔ لیکن امریکا کو خلیج اور مشرق وسطیٰ میں چین کی سرگرمیوں پر تشویش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے سعودی عرب کو چین کے ساتھ روابط بڑھانے پر دھمکی دی ہے کیونکہ چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب سے امریکا اور مغربی ممالک خوفزدہ ہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ کے سعودی عرب پہنچنے پر امریکی ایوان صدر وہائٹ ہاؤس میں نیشنل سیکورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی نے بدھ کے روز دورے پر ردعمل دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ چین کی جانب سے دنیا بھر میں اثر رسوخ پھیلانے کی کوشش بین الاقوامی نظام کے لیے ’’سازگار نہیں‘‘ ہے۔ جبکہ سعودی عرب کی جانب سے امریکیوں کی دھمکی کے جواب میں انہیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہم اپنے معاملات میں اب تم سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔
سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے سعودی خارجہ پالیسی کا رخ تبدیل کیا ہے، چینی صدر کے اس دورے میں سعودی عرب اور چین کے درمیان 30 ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کی پٹرولیم مصنوعات کی کل فروخت کا 25 فی صد صرف چین خریدتا ہے۔ باقی 75 فی صد دنیا کے دوسرے ممالک کو فروخت کی جاتی ہیں۔ چین کی ان بڑھتی تجارتی سرگرمیوں سے امریکا پریشان ہے اس نے چین کا راستہ روکنے کی بہت کوشش کی ہے۔ سعودی عرب کو امریکا کی طرف سے دھمکی وہائٹ ہاؤس کی نیشنل سیکورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی کے ذریعے سے دی گئی ہے، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ سعودی عرب ان کا نازک اتحادی ہے لیکن ہم نے اسے چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر خبردار کیا ہے۔ (گویا یہ ایک طرح کی دھمکی ہے) امریکا اپنے مفادات کی تکمیل میں اتنا اندھا ہوجاتا ہے کہ دوسروں کے مفادات اس کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ 2004 میں اس وقت کے سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صحافی ڈیوڈ اٹاوے سے کہا تھا کہ ’’امریکی سعودی تعلقات کیتھولک عقیدے کی شادی نہیں ہے جس میں صرف ایک بیوی کی اجازت ہے، یہ تعلقات مسلم شادی ہے جہاں بیک وقت 4 بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔ سعودی عرب امریکا کو طلاق نہیں دے گا لیکن دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات بھی رکھے گا‘‘۔ لیکن امریکا مشرق وسطیٰ میں صرف اور صرف اسرائیل کے مفادات کا نگران ہے۔ لیکن اس کے برعکس مشرق وسطیٰ کی سیاست کروٹ بدل رہی ہے اور اب وہاں امریکی اور مغربی اثر رسوخ ختم ہورہا ہے۔ شاہ سلمان نے چینی صدر شی جن پنگ کو سعودی عرب کے دورے کی دعوت دی، اس سہ روزہ دورے کے آغاز ہی میں دونوں ممالک کے درمیان 34 مختلف نوعیت کے معاہدے ہوئے۔ یہ تمام معاہدے اسٹرٹیجک نوعیت کے ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں بھی چینی صدر کا دورہ سعودی عرب بہت اہمیت کا حامل ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ جن معاملات پر معاہدے ہوئے ہیں ان میں گرین انرجی، گرین ہائیڈروجن، فوٹو وولٹک انرجی انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹرانسپورٹیشن، لاجسٹکس، میڈیکل انڈسٹریز اور ہاؤسنگ کے شعبوں میں مزید تعاون ہوگا۔ گزشتہ سال یعنی 2021 میں چین اور سعودی عرب کے درمیان تجارتی حجم 80 ارب ڈالر تھا جبکہ 2022 کے اختتام تک دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 270 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ چین سعودی عرب کے ایک نئے شہر نیوم کو آباد کرنے میں تعاون کرے گا جو بحرمردار (ڈیڈ سی) اور مصری شہر شرم الشیخ کے قریب ہوگا اس شہر کی تعمیر پر تقریباً ایک کھرب ڈالر خرچ ہوں گے۔ توقع ہے کہ اس شہر کو مکمل طور پر آباد ہونے میں تقریباً 50 سال لگیں گے۔ اس شہر کی تعمیر میں چین 500 ارب ڈالر خرچ کرے گا۔ اس شہر کی خوبی یہ ہے کہ اس کی تعمیر میں آئینے استعمال کیے جائیں گے۔ 120 کلومیٹر تک آئینوں پر مشتمل دیوار یں ہوں گی۔ گویا یہ آئینوں کا شہر ہوگا۔ بلند و بالا عمارتیں ہوں گی جو اپنی بلندی میں نیویارک شہر کی عمارتوں کو مات کریں گی۔ یہ شہر صحرا میں تعمیر کا ایک شاہکار ہوگا۔
امریکا ایک طویل عرصے تک دنیا کی واحد سپر پاور کے مزے لوٹنے کے بعد اب چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور عسکری قوت سے خوفزدہ ہے۔ اگر چین سعودی تعلقات مزید مستحکم ہوتے ہیں تو امریکا کا اوپیک پر کنٹرول کم ہوجائے گا اور عالمی طور پر پٹرولیم کا کنٹرول امریکا کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ کیونکہ اوپیک کی سربراہی سعودی عرب کے پاس ہے۔ اسی لیے امریکی سمجھتے ہیں کہ چین اور سعودی عرب کے تعلقات سے امریکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگا۔ حال ہی میں جاری ہونے والی پینٹا گون کی رپورٹ میں امریکی محکمہ دفاع نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ دنیا بھر میں تجارتی اور اقتصادی روابط بڑھانے کے ساتھ ساتھ چین اپنے ہتھیار بھی مشرق وسطیٰ کے ممالک کو فروخت کرے گا۔ پینٹا گون کا اندازہ ہے کہ 2035 تک چین کے پاس 1500 نیوکلیئر وار ہیڈ یعنی ایٹمی جنگی ہتھیار ہوں گے۔ جبکہ اس وقت چین کے پاس 400 ایٹمی جنگی ہتھیار ہیں۔ چین سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت آگے بڑھ رہا ہے۔ اس وقت ڈیجیٹل سلک روڈ، بیلٹ روڈ انی شیٹیو، کے علاوہ ڈرون، آب دوز، گن شپ بوٹس، زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائیل سسٹم اور فائٹر جیٹ طیارے نہ صرف سعودی عرب کو فروخت کررہا ہے بلکہ اس کے خریداروں میں، سربیا، انڈونیشیا، قازقستان عراق اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ چین کی دفاعی تجارت سے دنیا پر حکومت کرنے کے امریکی ایجنڈے کو سخت نقصان پہنچتا ہے امریکا اس بات سے بھی خوفزدہ ہے کہ جبوتی میں چین نے اپنا پہلا غیر ملکی فوجی اڈہ قائم کرلیا ہے، یہ صورت حال امریکیوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
دراصل امریکا کو چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی، اقتصادی اور عسکری قوت سے خوف ہے۔ چین کی ایک اور خوبی بھی ہے جو امریکا کے پاس نہیں ہے، چین اپنی ٹیکنالوجی کو منتقل کرنے میں کسی کنجوسی سے کام نہیں لیتا وہ اپنے کلائنٹ ممالک کو بخوشی ٹیکنالوجی منتقل کررہا ہے۔ اپنی تجارت کے لیے ان ممالک پر کوئی شرائط عائد نہیں کرتا نہ ہی چین ان ممالک کے اندرونی سیاسی اور سماجی و ثقافتی معاملات میں امریکا کی طرح مداخلت نہیں کرتا۔ امریکا اپنا کلچر اپنا طرز سیاست اور بسا اوقات اپنا مذہب بھی ’’دوست ممالک‘‘ پر تھوپنے اور مسلط کرنے سے باز نہیں آتا۔ اس کے برعکس چین یہ سب کچھ نہیں کرتا اس لیے وہ سعودی عرب کے لیے بھی قابل قبول ہے، ایران کو بھی پسند ہے، اور پاکستان کے لیے بھی باعث اطمینان ہے۔ امریکا اپنے نظریاتی مخالف ممالک پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگا کر انہیں بلیک میل کرتا رہتا ہے یہ اس کی عادت بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے اپنا رخ امریکا سے موڑا ہے۔ خاص کر جمال خاشق جی کے قتل کے معاملے کے بعد سے امریکا سعودی تعلقات میں تلخی کا عنصر شامل ہوگیا تھا۔ اس سال اگرچہ امریکا نے سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان کان ام جمال خاشق جی کے قتل کے معاملے سے الگ کیا ہے۔ لیکن اس امریکی اقدام کا کوئی خوشگوار اثر امریکا سعودی تعلقات پر نہیں پڑا۔ امریکا کا سعودی عرب پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے مسلسل دباؤتھا جس کے نتیجے میں کئی خلیجی ممالک نے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی غیر معمولی حد تک بڑھائے۔ لیکن سعودی عرب نے اس معاملے میں ابھی تک امریکی دباؤ قبول نہیں کیا ہے۔