ہا ئے اْس زود پشیماں کا پشیماں ہو نا

599

وقت ِ وداع جنرل باجوہ نے نامور صحافیوں کے ساتھ الوداعی میٹنگ کی تھی اس میٹنگ میں ایک خاتون صحافی نے بڑا اہم سوال پوچھا کہ باجوہ صاحب ہائبرڈ رجیم پروجیکٹ آپ کی وہ ناکامی ہے جسے فوج کو کئی دہائیوں تک بھگتنا ہوگا۔ باجوہ صاحب نے حق گوئی کا مظاہرہ کیا اور بڑے دکھی دل کے ساتھ کہا کہ ہم چارجنرلز پی ٹی آئی پر قربان ہوئے ہیں اور بڑا دکھ یہ ہے کہ فوج کی ساکھ کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ سی پیک آ چکا ہے معیشت مضبوط ہے تاریخ میں پہلی بار پاکستان اتنا مضبوط (strong) تھا ڈالر بھی مستحکم تھا ہم نے ان لیے تمام راستے صاف کیے اور اس نے ہمیں یقین دلایا کہ معیشت اس سے بھی بہت زیادہ بہتر ہوگی کیونکہ ہمارے پاس 200 بندوں کی معاشی ٹیم ہے لیکن ہمیں چند مہینوں ہی میں احساس ہوگیا تھا کہ ہم بہت بڑی غلطی کر بیٹھے ہیں چونکہ ہم اس کا حصہ تھے اس لیے ہم نے آخری دم تک ان کے ملکوں سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ نہ چل سکا کیونکہ یہ صرف باتیں ہی کر سکتا تھا عملاً ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ مزید تباہی سے بچنے کے لیے ہم نے نیوٹرل ہونا ہی بہتر جانا اب ہمیں گیٹ نمبر 4 کو مکمل طور پر ہر قسم کے سیاستدانوں کے لیے بند کرنا ہو گا اسی میں پاکستان کی بھلائی ہے۔
اس تمہید کے بعد کہنا یہ ہے کہ معاشی حالات کو اس نہج تک پہنچانے میں رواں دہائی کے دوران آنے والی حکومتوں کا اہم کردار ہے۔ وہ یوں کہ گزشتہ ہفتے انٹرنیشنل سکوک بانڈ کی ایک ارب ڈالر کی ادائیگی سے حکومت نے دیوالیہ پن کے فوری خطرات کو تو ٹال دیا لیکن معاشی ماہرین آنے والے چند برس میں جن ادائیگیوں کے لیے انتظامات کی جانب توجہ دلارہے ہیں وہ بلاشبہ غیرمعمولی ہیں۔ آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق اگلے تین برس کے دوران پاکستان کو 73 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں، جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر اس کا عشرعشیر بھی نہیں۔ معاشی حالات کو اس نہج تک پہنچانے میں رواں دہائی کے دوران آنے والی حکومتوں کا اہم کردار ہے۔ اس دوران ملک کے بیرونی قرضوں میں دو گنا اضافہ ہوا اور 2015ء میں بیرونی قرضو ںکا جو حجم 65 ارب ڈالر تھا، گزشتہ مالی سال تک 130 ارب ڈالر تک پہنچ گیا مگر بھاری غیرملکی قرضوں کے باوجود قومی آمدنی بڑھانے کے لیے معاشی استحکام اور پائیدار منصوبوں کو ترجیح نہیں دی گئی، نہ ہی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ قومی شماریات کی رپورٹ کے مطابق پچھلے سات برس میں برآمدات کے حجم میں صرف 13 فی صد اضافہ ہوا مگر اس دوران درآمدات قریب 85 فی صد بڑھ گئیں۔ گزشتہ سات برس کے دوران کھلے دل سے غیرملکی قرضے لیے گئے مگر ان کی ادائیگی کہاں سے ہوگی، اس جانب توجہ نہیں دی گئی اور بتدریج یہ قرض کا پہاڑ آج اس قدر اونچا ہوچکا ہے کہ ہماری کمزور معیشت اس کے مقابلے میں منحنی معلوم ہوتی ہے۔ یہ صورتحال ہرچند کہ نہایت تشویش ناک ہے مگر اس سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں؛ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے میں مزید غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ بڑھتے ہوئے قرضوں کے مقابلے میں قومی آمدنی میں کیوں اضافہ نہ ہوا، یہ ایک کھلا راز ہے۔
قومی آمدنی میں اضافہ کرنے کی جانب ہماری حکومتوں کی غیردلچسپی ڈھکی چھپی نہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ فی زمانہ پاکستان ان ممالک میں نمایاں ہے جہاں معیشت کا بڑا حصہ غیر دستاویزی ہے۔ حکومتیں اشیائے ضروریہ اور پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود شعبوں پر بوجھ ڈالتی ہیں مگر اصلاح کی وہ اقدامات جو اَب تک نہیں کیے جاسکے اور جہاں فی الحقیقت اصلاح کی ضرورت ہے اس جانب کوئی توجہ نہیں۔ ہر آنے والی حکومت نے اپنی آمدنی میں اضافے کے ان امکانات پر کام کرنے کے بجائے قرضوں کے آسانی کو ترجیح دی مگر اب یہی تن آسانی قومی معیشت کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے
کے لیے بڑے فیصلوں اور فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے، مگر یہ سیاسی بحران، جس میں ملک مبتلا ہے، کسی جامع معاشی اقدام کی گنجائش پیدا نہیں ہونے دے گا؛ چنانچہ ضروری ہے کہ سیاسی استحکام پیدا کیا جائے اور اتفاقِ رائے کے ساتھ وہ قدم اٹھائے جائیں جن کے بغیر ہمارا قومی، معاشی اور سیاسی بحران ختم نہیں ہوسکتا۔ مزید سیاسی خاک اڑانے میں وقت ضائع کرنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے اس قومی اہمیت کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ادائیگیوں کا جو پہاڑ سامنے ہے اسے سر کرنے کی منصوبہ بندی بغیر وقت ضائع کیے ہونی چاہیے مگر اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ملک میں سیاسی امن اور استحکا م کا ماحول ہو۔ رواں سال جس قسم کے سیاسی حالات میں گزرا ہے اس میں معاشی بحران پیچیدہ تر صورت حال اختیار کر گیا ہے۔ حکومت نے اپنی سی کوششیں کی ہیں مگر یہ سب قومی معیشت کے لیے کچھ دقت طلب کرنے سے زیادہ نہیں۔ پائیدار بہتری میں جو بڑی رکاوٹیں درپیش ہیں سیاسی انتشار ان میں سرفہرست ہے؛ چنانچہ سیاسی انتشار میں کمی کرنا ہوگی اور ملک کے لیے طویل مدتی معاشی پالیسی کے لیے اتفاقِ رائے قائم کرنا ہوگا۔ ماضی کے برسوں میں ہماری حکومتوں نے جو تجربات کیے اب انہیں دہرانے کی گنجائش نہیں۔ ملکی قیادت کو اب محتاط ہوکر چلنا اور ماضی کی ان ذمے داریوں کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔