حکومت، معیشت اور پاکستانی بنک

558

ملک کی معاشی صورت حال سے متعلق تشویش میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہو رہا ہے ادائیگیوں میں عدم توازن کے باعث زر مبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں حکومت کی طرف سے ایک ارب ڈالر مالیت کے سکوک بانڈز کی ادائیگیوں کے بعد مرکزی بنک میں زر مبادلہ کے ذخائر کی مالیت کم ترین سطح کو چھو رہی ہے اور یہ سات ارب ڈالر تک رہ جانے کی اطلاعات ہیںجب کہ زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر بھی تیرہ ارب ڈالر کی سطح سے گر چکے ہیں اس کے باوجود حکومتی وزراء کی جانب سے قوم کو تسلیاں دی جا رہی ہیں کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی امکان نہیں دوسری جانب گورنر اسٹیٹ بنک کی طرف سے بھی یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ رقوم کی تمام ادائیگیاں معمول کے مطابق ہوں گی اور توقع ہے کہ رواں مالی سال کی دوسری ششماہی میں زر مبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں گے حالانکہ عملی حقیقت یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے زر مبادلہ کے ذخائر انتہائی نچلی سطح تک گرنے کے بعد سعودی عرب سے درخواست کی ہے کہ اسے فوری طور پر مزید تین ارب ڈالر نقد مہیا کئے جائیں جب کہ پاکستان پہلے ہی سعودی عرب سے بیل آئوٹ پیکج کے تحت تین ارب ڈالر قرض لے چکا ہے مزید تین ارب ڈالر قرض کی درخواست وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سعودی سفیر سے ملاقات میں کی جنہوں نے رقم کی فراہمی کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ مالیاتی حمایت کے حصول کی خاطر دوسرے غیر ملکی سفیروں سے بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں مالیاتی تعاون کے ساتھ ساتھ وہ ان سفیروں سے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو نرم کروانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی درخواست بھی کر رہے ہیں اس طرح ہم آج کل دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے در در کی خاک چھاننے میں مصروف ہیں کہ کہیں سے کسی طرح کی بھیک حاصل ہو جائے اور اسی بھیک کی توقع پر عوام کو طفل تسلیاں دی جا رہی ہیں۔گویا کیفیت یہ ہے کہ ؎
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
دوسری جانب صورت حال اس قدر گمبھیر ہو چکی ہے کہ تجارتی بنکوں نے صنعتی خام مال، موبائل، پلانٹ مشینری، موبائل فون اور پرزہ جات کے علاوہ کھانے پینے کی بنیادی اشیاء درآمد کرنے کے لیے بھی زرمبادلہ کی فراہمی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے پھلوں اور سبزیوںکے درآمد کنندگان کی انجمن تاجران کے مطابق اس وقت کراچی کی بندرگاہوں پر درآمدی پیاز، لہسن اور ادرک جیسی روز مرہ استعمال کی چیزوں کے سینکڑوں کنٹینر پھنس چکے ہیں جن کی بروقت کلیئرنس نہ ہونے سے آنے والے دنوں میں ان چیزوں کی شدید قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے جس کے باعث ان کی قیمتوں میں بھی ناقابل برداشت اضافہ یقینی ہے تجارتی بنک ان درآمد شدہ سبزیوں کی کلیئرنس کے لیے دستاویزات فراہم کرنے سے مسلسل انکاری ہیں ان بنکوں کا موقف ہے کہ ہمارے پاس زر مبادلہ دستیاب نہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق بندرگاہوں پر اس وقت درآمدی پیاز کے 250، لہسن کے 104 اور ادرک کے 63 کنٹینر پھنسے ہوئے ہیں جن کی ادائیگیوں کی مجموعی مالیت 55 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ بتائی جا رہی ہے۔ تجارتی بنکوں کی طرف سے مطلوبہ زرمبادلہ کی فراہمی سے انکار کے سبب پہلے سے مہنگائی کے شکار عام طبقے کی مشکلات میں اضافہ ہونا لازمی امر ہے جب کہ اگر ان کنٹینرز کو کلیئر کرانے میں زیادہ تاخیر کی گئی جس کے آثار نمایاں دکھائی دے رہے ہیں، تو ان سبزیوں کے کنٹینروں کے اندر بڑے بڑے گل سڑ جانے کا قوی اندیشہ ہے جس سے ایک طرف اندرون ملک ان اشیاء کی قلت اور قیمتوں میں اضافہ ہو گا جبکہ دوسری طرف قیمتی زر مبادلہ جس کی پہلے ہی شدید قلت سے پاکستان دو چار ہے مگر ان اشیاء کی درآمد پر خرچ ہو چکا ہے، ضائع ہو جائے گا جس کا عوام اور ملک و قوم سب کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا اس کے ساتھ ساتھ ایک اور عظیم قومی نقصان بیرون ملک منڈیوں میں پاکستان کے تجارتی اعتماد کو بھی پہنچے گا جس کے منفی اثرات طویل عرصہ تک ہماری درآمدی اور برآمدی تجارت کو متاثر کرتے رہیں گے ضرورت ہے کہ ملک و قوم کو ان مختلف النوع نقصانات سے محفوظ رکھنے کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بنک فوری اقدامات کریں گے…!
گمبھیر معاشی صورت حال کے باوجود وزارت خزانہ کی جانب سے ملک میں معاشی ایمرجنسی کے نفاذ کی زیر گردشت خبروں کی سختی سے تردید کی گئی ہے اور بے چارے عوام پر زور دیا گیا ہے کہ وہ معاشی بہتری اور استحکام کے لیے کردار ادا کریں اور ان افواہوں پر دھیان نہ دیں جو ملک کے قومی مفاد کے منافی ہیں۔ وزارت خزانہ کے ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں سماجی ذرائع ابلاغ میں مبینہ معاشی ہنگامی تجاویز سے متعلق پیغامات گردش کر رہے ہیں، وزارت خزانہ ان کی واضح الفاظ میں تردید کرتے ہوئے واشگاف اعلان کرتا ہے کہ معاشی ہنگامی صورت حال کے نفاذ کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اللہ کرے وزارت خزانہ کا یہ اعلامیہ حرف بہ حرف درست ہو اور ہماری قومی معیشت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ در پیش نہ ہو مگر وزارت خزانہ کو سطور بالا میں پیش کئے گئے حقائق کا بھی ادراک کرنا چاہئے اور ان کے تدارک کے لیے ٹھوس لائحہ عمل سامنے لایا جانا چاہئے ورنہ ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ حکومت بہت سے خوش کن اعلانات تو کرتی رہی ہے مگر عملی طور پر اس کے برعکس حالات کا سامنا عوام کو کرنا پڑا ہے۔ معاملہ کا یہ پہلو بھی فوری توجہ کا متقاضی ہے کہ پاکستانی بنک روس سے گندم کی درآمد کے لیے ایل سی کھولنے سے انکاری ہیں حالانکہ ملک میں خوراک کی کمی کے پیش نظر وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے روس سے قدرے سستی گندم کی درآمد کی باقاعدہ اجازت دی ہے مگر حکومتی پالیسی اور ملک میں زر مبادلہ کی شدید قلت کا احساس کئے بغیر بنک اس خدشے کے پیش نظر کہ ایسا کرنے کی صورت میں امریکہ کی جانب سے ان کے لیے مشکل حالات پیدا کئے جا سکتے ہیں اور جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے یہاں یہ وضاحت مناسب ہو گی کہ اگرچہ امریکہ نے پاکستان پر روس سے تجارت پر پابندی نہیں لگائی مگر قبل ازیں دو پاکستانی بنکوں پر ریگولیٹری خلاف ورزیوں کو جواز بنا کر امریکہ جرمانہ عائد کر چکا ہے جس سے خوفزدہ ہو کر پاکستانی بنک روس سے گندم کی درآمد کے لیے ایل سی کھلونے سے انکار کر رہے ہیں حالانکہ سیلاب سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات کے باعث گندم درآمد کرنے کی شدید ضرورت ہے، پاکستانی بنکوں کا رویہ یہی رہا تو حکومت روس سے سستا تیل درآمد کرنے کے لیے جو بات چیت کر رہی ہے اور اس کی کامیابی کے امکانات میں روشن ہیں، وہ کوششیں بھی بے کار جائیں گی اور محض امریکی دبائو کے سبب پاکستانی عوام سستی گندم ہی سے محروم نہیں رہیں گے بلکہ مہنگا تیل خریدتے رہنا بھی ان کی مجبوری ہو گی۔ حکومت پاکستان کو امریکہ کی ان بلا جواز پابندیوں اور خوف سے بنکوں کو نجات دلانے کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا ورنہ ایران کی طرح روس سے سستا تیل، گندم اور دیگر ضرورت کی اشیاء درآمد کرنے کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔