چینی صدر کا دورئہ سعودی عرب

392

چینی صدر شی جن پنگ سعودی عرب کے فرماں رواں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی دعوت پر تین روزہ سرکاری دورے پر ریاض پہنچ گئے ہیں۔ سعودی عرب میں چینی صدر کا غیر معمولی طور پر پرتپاک استقبال کیا گیا۔ چینی صدر دارالحکومت ریاض میں خلیجی تعاون تنظیم کے اجلاس سمیت عرب ممالک کے تین اہم سربراہ اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بدھ کو روزانہ کی بریفنگ میں بتایا کہ یہ دورہ چین اور چین عرب تعلقات کی تاریخ میں ایک عہدساز سنگ میل بن جائے گا۔ عالمی منظرنامے کو دیکھیں تو چین دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ اب وہ اپنے سیاسی اثرات بھی پھیلا رہا ہے، نئے عالمی منظرنامے میں چین اور امریکا کی سردجنگ غالب اہمیت اختیار کرگئی ہے جس کی وجہ سے امریکی خیمے میں رہنے والے ممالک بھی چین کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ مشرقِ وسطیٰ اور خلیج کے ممالک جو سیاسی طاقت تو نہیں رکھتے لیکن تیل کے ذخائر کی وجہ سے دولت مند بن گئے ہیں اور ان کی سیاسی اہمیت بھی تسلیم کی جانے لگی ہے۔ ان ممالک میں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی معیشت پر منفی اثرات پڑے ہیں، اس جنگ نے روس اور یورپ کو یکساں طور پر پھنسا دیا ہے۔ یہ جنگ بھی نئی صف بندی کا سبب بنی ہے اور سعودی عرب اور بھارت جیسے ممالک نے بھی روس کے خلاف صف میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ ان حالات میں چینی صدر کا دورہ سعودی عرب خصوصی اہمیت رکھتا ہے، امریکا نے چینی صدر کے دورے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ صدر شی جن پنگ نے آخری بار 2016ء میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے بعد صدر شی جن پنگ مصر اور ایران بھی گئے تھے، سعودی عرب کی تیل کی برآمدات کا ایک چوتھائی چین کو جاتا ہے۔ تیز رفتار اقتصادی ترقی کی وجہ سے چین کی توانائی کی ضروریات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جغرافیائی تزویراتی حیثیت سے مشرق وسطیٰ ہمیشہ اہمیت رکھتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بحران کا ایک سبب بھی توانائی کے وسائل سے مالا مال ہونا ہے، عراق اور لیبیا کی بربادی اور انتشار کا سبب بھی تیل کے ذخائر تھے جن کی وجہ سے یہ ممالک عالمی سازشوں اور اندرونی انتشار کی وجہ سے تباہ ہوئے۔ چین اور سعودی عرب دونوں ممالک سے پاکستان کے خصوصی تعلقات ہیں اس وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ موجودہ ’’ڈیفالٹ‘‘ کے خطرے سے بچنے کے لیے پاکستان چین اور سعودی عرب کو دیکھ رہا ہے اور ہماری سیاسی اور غیر سیاسی قیادت ان کی طرف اپنی نظریں گاڑے ہوئے ہے۔