تعلیم کا جنازہ

1205

جب سے اٹھارہویں ترمیم کی آڑ میں بعض محکمے صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں لوٹ مار کرنے والے حکمرانوں کو سونے کی کانیں ہاتھ آگئی ہیں۔ وہ سب سے بڑا ڈاکا تعلیم پر مارتے ہیں۔ سندھ میں تو جامعات کا معیار تباہی کے قریب ہے، اساتذہ کے تقرر کا ایک معیار ہے لیکن کون جانتا ہے کہ اس کو کس خوبصورتی سے معیار بالائے طاق رکھ کر سفارش اور نااہل لوگوں کو استاد کے منصب پر مسلط کیا جارہا ہے۔ کالجوں میں بڑے پیمانے پر اساتذہ کی اسامیاں خالی رکھ کر اب ان پر ایڈھاک تقرر کیا جارہا ہے۔ ایک ایک کرکے تعلیمی اداروں کو بند کیا جارہا ہے، کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش یا تراش کر کبھی ڈی جے کالج، کبھی اسلامیہ کالج اور کبھی کسی جامعہ کی عمارتوں پر قبضہ کروایا جارہا ہے۔ یہ سب یوں ہی نہیں ہورہا بلکہ جو لوگ سندھ میں برسراقتدار ہیں ان کا ہدف عوام کو سہولت پہنچانا نہیں بلکہ عوام کی خدمت کے اداروں پر قبضہ کرکے اس کے فنڈز ٹھکانے لگانا ہے۔ عوامی نمائندوں کو ان اداروں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے جمہوریت کی بنیادی شرح بلدیاتی انتخابات سے مسلسل فرار حاصل کیا جارہا ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ وفاق میں بھی اب یہی لوگ برسراقتدار ہیں اور جو اپوزیشن میں ہیں ان کا مقصد بھی حکومت میں واپس آنا ہے مسائل حل کرنا نہیں۔ ورنہ جو کچھ تعلیم کے ساتھ ہورہا ہے اس کا جنازہ سرعام نکالا جارہا ہے اس کی روشنی میں تعلیم دوبارہ وفاقی شعبے میں دینے کی ضرورت ہے۔