عمران خان کیا چاہتے ہیں

451

ان دنوں سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ عمران خان کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں، سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سے کسی نے پوچھا عمران خان کون ہیں شاہ صاحب نے جواب دیا کہ عمران خان پنجابیوں اور پٹھانوں کی وہ بددعا ہیں جو الطاف حسین کے دل سے نکلی ہے بددعا کو ہمارے پڑوسی ملک میں شراپ کہا جاتا ہے ان کے خیال میں شراپ بہت شکتی شالی ہوتا ہے جسے ایک بار لگ جائے اسے تباہ و برباد کر کے چھوڑتا ہے گویا عمران خان پنجابیوں اور پٹھانوں کو تباہ و برباد کر کے چھوڑیں گے اسے قومی شراپ بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی زد میں تو پوری قوم آئی ہوئی ہے ٹی وی اینکر اور سیاسی مبصرین ایک دوسرے سے استفسار کررہے ہیں کہ عمران خان آخر چاہتے کیا ہیں، ان کے سیاسی مقاصد کیا ہیں، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کوئی نہیں دیتا حالانکہ سبھی کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ عمران خان اقتدار چاہتے ہیں اور جہاں تک ان کے سیاسی مقاصد کا تعلق ہے تو موصوف امیر المومنین بننا چاہتے ہیں، وہ پاکستان کو ریاست مدینہ قرار دے کر خلیفہ بننا چاہتے ہیں اب یہ ایک الگ موضوع ہے کہ ان کے مخالفین انہیں خلیفہ جی سمجھتے ہیں ویسے انہیں خلیفہ جی سمجھنا کچھ غلط بھی نہیں کیونکہ موصوف نے سیاست کو اکھاڑا بنا دیا ہے اور وہ خود خلیفہ بن کر سیاسی پہلوان تیار کررہے ہیں، اس اعتبار سے انہیں سیاسی خلیفہ کہا جاسکتا ہے عزت مآب جسٹس فائز عیسیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ اسلام میں راستہ بند کرنا گناہ کے زمرے میں آتا ہے مگر یہ بات تو اسی کی سمجھ میں آسکتی ہے جس میں ایمان کی رمق بھی پائی جاتی ہو مسلک عمرانیہ کے پیروکار تو مذہب سے بھی آزادی چاہتے ہیں اور اس آزادی کے حصول کے لیے عمران خان کی سیاسی دہلیز پر سرنگوں ہوگئے
ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ مذہب سے آزاد ہو کر عمران خان کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال رہے ہیں، عمران خان کا کہنا ہے کہ سیاست اور شریف فیملی دو متضاد حقائق ہیں، شریف زادے سیاست کی الف بے سے بھی واقف نہیں کیونکہ سیاست سمجھنے کے لیے عقل و شعور کی ضرورت ہوتی ہے مگر شریف خاندان کے لوگوں کے سر میں مغز ہی نہیں ہوتا، مغز سے عاری شخص بے عقل ہوتا ہے، یہ لوگ صرف پیسہ کمانے کا ہنر جانتے ہیں انہوں نے سیاست کو بھی کاروبار سمجھ رکھا ہے مگر حالات اور واقعات بتا رہے ہیں کہ عمران خان فہم و فراست سے بالکل انجان ہیں لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد عمران خان جو کچھ کررہے ہیں وہ دراصل شریف زادوں کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے، عمران خان نے قتل وغارت گری کی جو روش اختیار کی ہے وہ بالآخر ان کی سیاسی موت ثابت ہوگی، عوام دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کو بند کرنے کے دعویدار کسی بھی شہر کی ایک سڑک بند کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے، عوام حکومت سے استفسار کررہے ہیں کہ عمران خان کے سو دو سو بندے کسی بھی شہر کی سڑک پر موٹر سائیکلوں کا بند باندھ کر آمدو رفت بند کردیتے ہیں جبکہ ہزار پندرہ سو کی تعداد میں موجود پولیس والے کھڑے تماشا دیکھتے رہتے ہیں، اگر پولیس اہلکار ان پر لاٹھی چارج کر دیں ان کی چارجنگ ختم ہو جائے گی، مگر وہ تو خاموش تماشائی بنے مظاہرین کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں حکومت نے عوام کی بات پر توجہ نہ دی تو انہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا اب دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ کیا کرتی ہے، عمران خان کی سمجھ میں اتنی سی بات نہیں آتی کہ حکومت نے ان کی رسی ان کے گلے میں کیوں ڈال دی ہے، اگر وہ اس بات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ حکومت نے ان کی عوامی مقبولیت کا جنازہ نکالنے کے لیے ڈھیل دی ہوئی ہے، عمران خان کہا کرتے تھے کہ وہ ڈیل نہیں کریں گے سو حکومت نے انہیں ڈھیل دے کر اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے، عمران خان کے بعض خیر خواہوں کا کہنا ہے کہ خان صاحب کانوں کے کچے ہیں جو کچھ کہا جائے آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں، پہلے کسی نے کہا کہ ایک گولی لگی ہے دوسرے نے کہا ایک نہیں دوگولیاں لگی ہیں، تیسرے نے کہا ارے بھئی دو گولیوں سے کیا بنے گا کہو چار گولیاں لگی ہیں سو عمران خان نے کہنا شروع کر دیا کہ چار گولیاں لگی ہیں۔
میڈیا کے کچھ لوگ کہ رہے ہیں کہ عمران خان نے ضمنی الیکشن میں 52فی صد ووٹ لیے ہیں عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ ٹرن آئوٹ 35فی صد ہے تو انہیں باون فی صد ووٹ کیسے مل گئے، کچھ لوگ ضمنی الیکشن میں عمران خان کی کامیابی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں، اور عمران
خان ان کے ڈھول پر بھنگڑا ڈال رہے ہیں، حالانکہ انہیں سوچنا چاہیے کہ عام انتخابات میں 30,32فی صد ووٹ لے کر وزیر اعظم بنے تھے اور ضمنی الیکشن میں 20فی صد ووٹ لینے کا مطلب مقبولیت میں واضح کمی کی نشانی ہے مگر عمران خان کو اس بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں، کیونکہ ان کے چاپلوس مشیر ہمہ وقت یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ وہ عوام کا واحد آپشن ہیں اور ملکی حکمرانی ان کا حق ہے اور حق کے لیے لڑنا سب سے بڑا حق ہے سو عمران خان اس حق کے حصول کے لیے لڑ رہے ہیں مگر اس لڑائی میں اپنی ٹوٹی ہوئی چونچ بھی نہیں دیکھ رہے ، انہیں اس حقیقت کا بھی احساس نہیں کہ چونچ ٹوٹ جائے تو لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ پروں سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے، عمران خان چونچ کے بعد اپنے پروں سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ جمائما نے اپنے بیٹوں کو عمران خان کی خیر خیریت معلوم کرنے کے لیے نہیں بھیجا کیونکہ وہ عمران خان کو گولیاں لگنے کی کہانی سے واقف ہے اس لیے خود نہیں آئی مگر بیٹوں کو یہ فرض سونپا ہے کہ وہ اپنے والد محترم کو سمجھائیں کہ لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں بلکہ عقل سے کام لیں، چور چور کا شور مچا کر عوام کی سماعتوں کو لہو لہان کرچکے ہیں قاتلانہ حملے کی کہانی پر کوئی یقین نہیں کرے گا بہتر ہوگا کچھ عرصہ کے لیے لندن چلے آئیں اور بچوں سے عقل سیکھیں، عقل ایک ایسا ہنر ہے جو کسی بھی عمر میں سیکھا جاسکتا ہے جہاں تک بوڑھے توتوں کا تعلق ہے تو عمران خان بھی بوڑھے ہو چکے ہیں بچوں کے مستقبل کا نہیں تو کم از کم اپنے بڑھاپے کا ہی خیال کر لیں۔