لانگ مارچ۔ عدالت عظمیٰ کا صائب فیصلہ

344

عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو روکنے کی درخواست غیر موثر قرار دے کر نمٹا دی ہے اور رائے دی ہے کہ لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے احتجاج کا حق لا محدود نہیں عدالت سمجھ سکتی ہے کہ حکومت موجودہ صورت حال سے پریشان ہے تاہم عدالت سیاسی معاملات میں تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہوا تو عدلیہ مداخلت کرے گی، عدالت ایسا حکم دینا نہیں چاہتی جو قبل از وقت ہو ۔ عدالت عظمیٰ میں یہ درخواست حکومتی اتحاد کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے دائر کی تھی جو خود بھی ایک معروف قانون دان ہیں۔ درخواست کی سماعت عدالت عظمیٰ کے منصف اعلیٰ عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کی۔ درخواست میں ماضی کے لانگ مارچ کے بارے میں عدالتی احکامات کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا گیا ہے، گزشتہ لانگ مارچ سے متعلق توہین عدالت کی درخواست بھی زیر سماعت ہے، چیف جسٹس نے لا اینڈ آرڈر سے متعلق وفاق کے پنجاب حکومت کو آئین کے تحت ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے لکھے گئے خط کی بابت ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 149 کے تحت وفاق کا صوبوں کو خط بہت سنجیدہ معاملہ ہوتا ہے، ملک میں ہنگامہ نہیں امن و امان چاہتے ہیں، لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے، احتجاج کا حق لا محدود نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار کامران مرتضیٰ کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ لانگ مارچ کنٹرول نہیں کر سکتی؟ یہ انتظامی معاملہ ہے اور انتظامیہ سے رجوع کریں، عدلیہ صرف غیر معمولی حالات ہی میں مداخلت کر سکتی ہے، جب انتظامیہ کے پاس اس طرح کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے وسیع اختیارات موجود ہیں تو پھر عدالت کیوں مداخلت کرے، کامران مرتضیٰ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ دو ہفتے سے عمران خان کا لانگ مارچ شروع ہے۔لانگ مارچ سے معاملات زندگی متاثر ہو سکتے ہیں، لانگ مارچ پی ٹی آئی کا حق ہے لیکن عام آدمی کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں، جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے احتجاج کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار بنایا ہے؟ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ تو کافی دنوں سے چل رہا ہے، کیا آپ نے انتظامیہ سے رجوع کیا ہے؟ لانگ مارچ کے معاملے میں جلدی کیا ہے اور انتظامیہ کی غفلت کیا ہے؟ انتظامیہ کو متحرک کریں کہ وہ اپنا کردار ادا کریں، آئے روز اسلام آباد میں پارلیمنٹ سمیت کئی جگہوں پر احتجاج ہوتے ہیں، کیا کبھی باقی احتجاجوں کے خلاف آپ عدالتوں میں گئے ہیں؟ایک مخصوص جماعت کے لانگ مارچ میں ہی عدالت کی مداخلت کیوں درکار ہے؟ کیا وفاق کو نہیں معلوم کہ اپنی ذمہ داری کیسے پوری کرنی ہے؟ عدالت عظمیٰ انتظامی معاملات میں کیا مداخلت کر سکتی ہے؟
جلسہ، جلوس، ریلیاں، لانگ مارچ یا کسی دوسری شکل میں احتجاج عوام کا آئینی و قانونی حق ہے اور ایسے کسی بھی احتجاج کو آئین اور قانون کی حدود میں رکھنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، عموماً اس ذمہ داری کی ادائیگی کے دوران انتظامیہ کے حدود سے تجاوز کی شکایت دیکھنے اور سننے میں آتی ہے جس کے خلاف احتجاجی طبقہ یا سیاسی جماعتیں عدالتوں سے رجوع کرتی رہی ہیںجس کی تازہ مثال 25 مئی کے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے موقع پر پنجاب میں اس وقت کی نواز لیگ کی حکومت کی جانب سے دیکھنے میں آئی جس کے دوران لوگوں کی پکڑ دھکڑ، چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی اور بڑے پیمانے پر پولیس تشدد کی شکایات سامنے آئیں جس کے خلاف تحریک انصاف کے عدالت سے رجوع کرنے کا جواز تو موجود تھا مگر جب سے پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے اس نے بار بار خود عدلیہ سے رجوع کی روایت قائم کی ہے جس سے اعلیٰ عدلیہ کا قیمتی وقت ضائع ہونے کا تاثر مستحکم ہوا ہے، اس وقت بھی حکومتی سینیٹر کامران مرتضیٰ کی زیر بحث درخواست کے علاوہ تحریک انصاف کے گزشتہ لانگ مارچ کے دوران عدالت عظمیٰ کے حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کی حکومتی درخواست کے علاوہ عدالت عالیہ اسلام آباد میں موجودہ لانگ مارچ سے متعلق دو درخواستیں زیر سماعت ہیں جب کہ دوسری جانب بلا مبالغہ لاکھوں کی تعداد میں مقدمات عدالتوں میں فیصلہ طلب پڑے ہیں، یہ مسلمہ عالمی اصول ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے جب کہ پاکستان کی عدالتوں میں یہ معمول کی بات ہے کہ لوگوں کو انصاف کے حصول کی خاطر سالہا سال عدالتوں کے چکر لگانا پڑتے ہیں اور ایسی مثالیں بھی عام ہیں کہ دادا درخواست دائر کرتا ہے اور اس کی دو نسلیں انصاف کی امید میں اگلے جہان سدھار جاتی ہیں اور فیصلہ سننا پوتے کا مقدر بنتا ہے، عدالتوں میں اس قدر تاخیر کے سبب جہاں بدعنوانی کو فروغ ملتا ہے وہیں لوگ نظام انصاف کے بارے میں شکوک و شبہات اور مایوسی سے بھی دو چار ہوتے ہیں اور بے پناہ معاشی و معاشرتی مسائل بھی جنم لیتے ہیں مگر اثر و رسوخ رکھنے والے سیاسی لوگ فوری نوعیت کی درخواستیں دائر کر کے اعلیٰ عدلیہ کا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں، دھرنے سے متعلق زیر سماعت درخواستیں اس کی ایک مثال ہیں، عدالت عظمیٰ نے اچھا کیا کہ تحریک انصاف کے جاری دھرنے سے متعلق حکومتی سینیٹر کی درخواست غیر موثر قرار دے کر نمٹا دی مگر پھر بھی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے تین معزز جج صاحبان کے کئی دن اس غیر موثر درخواست کو نمٹانے میں صرف ہو گئے۔ بہتر ہو اگر اعلیٰ عدالتیں ایسی غیر ضروری درخواستیں ابتدائی مراحل ہی میں نمٹا کر بلاوجہ درخواست بازی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کریں اور اس طرح بچنے والا قیمتی وقت عوام کو جلد از جلد انصاف کی فراہمی میں صرف کیا جائے تاکہ ملک کے نظام انصاف کے بارے میں عوام الناس کی شکایات کا کچھ تو ازلہ ہو سکے…!!!