کاش! کوئی آبلہ پا وادی ٔ پْر خار میں آوے

659

حالات بالکل ایسے ہی تھے جیسے آج کل ہمارے وطن کے ہیں۔ ایک بڑی نیکی کے نام پر ایک بڑا فساد ہونے جا رہا تھا۔ افہام و تفہیم، رواداری، خاندانی رشتے سب ہوا ہو رہے تھے۔ فرق بس اتنا ہے کہ میرا وطن پاکستان آبادی کے اعتبار سے ایک بڑا ملک اور زمانے کے اعتبار سے اکیسویں صدی عیسوی میں زندہ ہے جبکہ میرا وہ شہر نسبتاً مختصر آبادی اور زمانے کے اعتبار سے چھٹی صدی عیسوی میں زندہ و موجود تھا۔ مکہ شہر کے لوگ ’’بڑی نیکی‘‘ کے نام پر شہر کو خون آلود کرنے پر تْلے بیٹھے تھے۔ ہر قبیلہ اور پارٹی یہ بڑی نیکی اور اعزاز صرف اپنے ہی نام کرنا چاہتی تھی، چاہے انہیں مخالفین کا کتنا ہی خون بہانا پڑ جائے۔
کعبے کی دیواریں نئے سرے سے اْٹھائی جا چکی تھیں اور حجر اسود کی تنصیب کا مرحلہ آچکا تھا۔ ہر گروہ بات چیت اور مفاہمت سے نہیں طاقت اور تلوار کے زور پر ہر صورت اپنا حق منوانا چاہتا تھا۔ مکہ کا ایک با وقار، سنجیدہ اور دْور اندیش (ویژنری ) نوجوان بے قراری سے صورت حال کا جائزہ لے رہا تھا۔ فساد کسی بھی صبح یا شام پْھوٹ سکتا تھا۔ نیکی کے نام پر اس فساد اور ممکنہ خونریزی کو کیسے روکا جائے؟ اس نوجوان کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی۔
وہ رات بھر بے قرار رہا، اْسے گمان گزرا ’’آنے والی صبح خون آشام ہو سکتی ہے‘‘۔ اگلی صبح قبیلوں کے جمع ہونے سے پہلے ہی وہ حرم جا پہنچا، حجر اسود کو نصب کرنے کی جگہ کا جائزہ لیا اور پھر سرداروں کی آمد کا انتظار کرنے لگ گیا۔ غصے، نفرت اور تعصب کی آگ سے بھرے سردار جمع ہو گئے تو اْس کے ذہن رسا نے مسکراتے ہوئے اْن کو مخاطب کیا اور کہا ’’آپ میں سے ہر قبیلے کو، آج خون بہائے بغیر ، حجر اسود کی تنصیب کا موقع اور اعزاز ملنے جا رہا ہے۔ اپنی تلواریں نیاموں میں رکھ کر آپ سب آگے بڑھ آئیں۔ پھر اس نے کندھے سے اپنی چادر اُتاری، اُسے زمین پہ بچھایا، حجر اسود کو چادر کے درمیان رکھا اور سرداروں سے کہا آپ سب مل کر چادر کو کونوں سے اْٹھا لیں۔ حجر اسود اپنی جگہ تک پہنچ گیا تو اس نے اپنے پاکیزہ ہاتھوں سے اسے دیوار میں نصب کر دیا‘‘۔ آنکھیں حیرت اور خوشی سی پھٹی جا رہی تھی۔ ایسا حل تو کسی کے وہم و خیال میں بھی نہ تھا۔ اس غیر معمولی جْرآت اور بصیرت (ویژن) والے انسان نے اپنے بر وقت اقدام سے خون آشام صورت حال کو رحمت کی برکھا میں بدل دیا۔
محسن ِ انسانیت کی اس خوبصورت تدبیر نے آنے والی نسلوں اور صدیوں کو بھی ایک قابل تقلید سبق دے دیا: ہر مشکل گھڑی اور آفت اپنے دامن میں ایک موقع (opportunity) بھی لیے پھِرتی ہے۔ بصیرت، جرأت اور بر وقت اقدام ہر آفت کو راحت میں بدل سکتا ہے۔ میرا وطن پاکستان بھی آج کل خون آشام آفتوں کی زد میں ہے۔ وطنِ عزیز کا ہر گروہ ’’ترقی، خوشحالی اور انصاف‘‘ کا اپنی اپنی پسند کا حجرِ اسود اْس کی دیواروں میں نصب کرنے کے لیے تلواریں اْٹھائے پھِر رہا ہے اور بضد ہے کہ ایسا کرنا صرف اْسی اکیلے کا حق ہے۔
کاش محسن ِ انسانیت کا کوئی سچا پیروکار کوئی سیاسی لیڈر، کوئی سیاسی جماعت بصیرت، اور جْرأت سے کام لے کر بروقت اقدام کا سوچے۔ اِن گروہوں کو گالم گلوچ، دْشنام طرازی اور نفرت کی سیاست سے واپس موڑ کر بات چیت، رواداری اور افہام و تفہیم کی طرف لے آئے۔ کسی میثاق پر اکٹھا کر لے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں اور عدلیہ کو مل جْل کر دستوری چادر کے کونے تھامنے کی راہ دکھا دے۔ اپنے پیارے اور مکرم نبی کی سْجھائی ہوئی امن اور سلامتی کی راہ۔
کانٹوں کی زبانیں پیاس کے مارے سْوکھی جا رہی ہیں۔
کاش! کوئی باہمت آبلہ پا وادی ٔ پْر خار میں آنے کا سوچے۔