قبرستان ارشد شریفوں سے بھرے پڑے ہیں

330

ایک دور تھا جب ’’الذوالفقار‘‘ کی گونج پورے ملک میں سنائی دیا کرتی تھی۔ پی پی پی کے خلاف شدید ترین آپریشن شروع ہو چکا تھا۔ جگہ جگہ دلائی کیمپ اور عقوبت خانے دریافت ہو رہے تھے۔ پاکستان میں جہاں اور جس جگہ کوئی بھی بڑا سانحہ جنم لیتا، الذوالفقار کے سر ڈال کر فائل بند کر دی جاتی تھی۔ پھر ہوا یہ کہ موساد اور خاد کا نام آنا شروع ہو گیا، وہ نام اتنا عام ہوا کہ الذوالفقار کا نام پس ِ پردہ چلا گیا اور جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے، اس کے بعد تا حال کسی کی زبان سے الذوالفقار کا نام نہیں سنا گیا۔ اسی دوران ’’را‘‘ کا اتنا شہرہ ہوا کے باقی سارے نام اس کے تلے دب گئے۔ بے شک اب وہ پہلے جیسی شہرت تو نہیں لیکن اب بھی سیاسی حکمت عملیوں اور توڑ پھوڑ کے لیے ’’را‘‘ کا ہتھوڑا، لوہار کی ایک کی طرح کہیں نہ کہیں برستا ضرور نظر آتا ہے۔ کراچی اور سندھ میں ایک بہت خوفناک نام ’’ایم کیو ایم‘‘ کا تاریخ میں بہت جلی حرفوں سے لکھا جائے گا۔ تیس چالیس برس کے دوران ہونے والے ہر قسم کے سانحے اور واقعات اس کے کھاتے میں ڈال کر نجانے کتنی فائلیں بند کی جاتی رہیں۔ آج بھی گاہ بگاہ بہت سارے بڑے بڑے سانحے اور واقعات کی تحقیقات کو ایم کیو ایم کا نام لکھنے کے بعد بند کر کے یہ سمجھ لیا جاتا ہے جیسے پولیس اور تحقیقاتی اداروں نے اپنی جان چھڑالی ہو۔ ایک بہت بڑا دور ’’طالبان‘‘ کا بھی چلتا رہا ہے، گوکہ اس کا نام اب بھی بہت آتا ہے لیکن ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے‘‘ کے تحت لا ینحل سانحات کی فائل کو طالبان کا نام لکھ بند کر دیا جاتا ہے۔دراصل مختلف ادوار میں مختلف تنظیموں اور ملکی و غیر ملکی ایجنسیوں کا نام لکھ کر فائلوں کو بند کر دینے جیسی کارروائیاں ہی ہیں جن کی وجہ سے آج پاکستان بہر لحاظ تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچا ہوا ہے۔
یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ بڑی بڑی قتل و غارت گریوں، ڈکیتیوں، بم دھماکوں، خود کش حملوں اور سانحات کی پس ِ پشت یہی سارے نام کارفرما رہے ہوں گے تب بھی کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہوتا اصل مجرموں تک نہ صرف پہنچا جاتا بلکہ ایسے تمام مجرموں کو کیفر ِ کردار تک پہنچایا بھی جاتا۔ اگر لیاقت علی خان کے قتل کے فوراً بعد اصل قاتلوں کے تک پہنچنے والی بات ہو چکی ہوتی تو کسی کی مجال ہو ہی نہیں سکتی تھی کہ ملک میں کوئی دوسرا قتل ہوتا۔ کیا الذوالفقار کے سارے ملک دشمن اسی پاکستان میں نہیں تھے۔ ٹھیک ہے کہ جب وہ طاقتور تھے ان پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہیں ہو گا لیکن کیا حالات معمول پر آنے کے بعد ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی تھی۔ کیا جہاز کو ہائی جیک کرنے والے سب کے سب پاکستان واپس نہیں آ گئے تھے، جو نہیں بھی آئے تھے کیا ان کو انٹرپول کے ذریعے بلایا نہیں جا سکتا تھا۔ الذوالفقار کے جو بھی جرائم رہے ہوں یا دوسرے جرائم پیشہ گروہوں اور تنظیموں کے جو بھی جرائم ہوں، ان سب کو اگر جمع کیا جائے تو 27 دسمبر 2007 والا سانحہ اس سے ہزار گنا زیادہ ہوگا، تین دن تک اس ملک کو جس انداز میں برباد کیا گیا وہ چنگیز خان کے دور کی یاد کو تازہ کر دینے کے لیے کافی تھا۔ نہ کسی کی جان محفوظ تھی نہ مال، ہر چیز کو خاک میں ملا دیا گیا تھا اور ایسا کرنے والوں میں پی پی پی کے علاوہ کوئی پارٹی تھی ہی نہیں۔ اس کے باوجود آج تک نہ تو کسی پارٹی یا پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ ہی پارٹی کو زندگی بھر کے لیے کالعدم قرار دیا گیا بلکہ اس کے برعکس اتنی دہشت گرد جماعت کے حوالے پورا ملک کر دیا گیا، کیا یہ قومی و سنگین نوعیت کا جرم نہیں؟۔
جرم کسی بھی تنظیم یا ایجنسیوں نے کیا ہو، کیا ان کے ذمے داروں کو پکڑنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داریوں میں نہیں آتا یا صرف مختلف ملکی و غیر ملکی ایجنسیوں اور تنظیموں کا نام لیکر فائلوں کو بند کردینا ہی کافی ہوتا ہے۔ یہ بھی نہیں کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کوئی کارروائی کیا ہی نہیں کرتے لیکن افسوس یہ ہے کہ 90 فی صد سے زیادہ کارروائیاں غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے انجام دینا ادروں کی فطرت ِ ثانیہ بن کر رہ گئی ہے۔ شک ہو یا یقین، بندوں کو اٹھا لینا اور پھر ان کے ساتھ ہر حد سے گزرجانا، ماورائے عدالت قتل کرنا، ان کو کسی بھی عدالت میں پیش کیے بغیر خود ہی فیصلہ سناکر دوسری دنیا کی سیر کرا دینا، کیا استریاں، کیا ڈرل مشینیں، کیا ناخنوں کی کھنچائی اور کیا چہروں کو ناقابل ِ شناخت کر دینا جیسے اذیتناک سلوک پاکستان جیسے ملک میں کوئی قابل ِ گرفت بات سمجھی ہی نہیں جاتی۔
آج سارا میڈیا ارشد شریف ارشد شریف کر رہا ہے۔ کرنا بھی چاہیے۔ جو کچھ بھی اس کے متعلق سننے میں آرہا ہے وہ دل لرزا دینے کے قابل ہے لیکن میں میڈیا کے ایک ایک فرد سے سوال کرتا ہوں کہ کیا انہیں پاکستان میں وہ 440 ارشد شریف نظر نہیں آئے جو ایک سفاک پولیس آفیسر کے ہاتھوں مارے گئے، کیا کراچی میں مر جانے والے 30 ہزار ارشد شریف نظر نہیں آئے جن کے 30 قاتل بھی اب تک نہیں پکڑے جا سکے، کیا وہ ارشد شریف نہیں تھے جن کی چمڑیوں کو ٹکٹکیوں پر باندھ کر ادھیڑا جاتا تھا، کیا وہ ارشد شریف نہیں تھے جو اس جرم میں مار دیے گئے کہ وہ افغان وار میں شریک تھے۔ نجانے کتنا کچھ ہے جو اس مد میں لکھا جا سکتا ہے لیکن میں اپنی نظم کے چند اشعا پیش کر کے ایسے تمام ارشد شریفین کی روحوں کو کچھ اس طرح سلام پیش کرنا چاہتا ہوں کہ
ابھی ہم کچھ نہیں کہتے
کبھی وہ وقت آئے گا
در و دیوار بولیں گے
اگر زنداں میں ڈالا تو
پسِ دیوار بولیں گے
اگر لب سی دیے تم نے
خموشی بول اٹھے گی
اگر خنجر کو دھویا تو
فلک کی آستینوں سے
ہمارا خون ٹپکے گا
ہمارے خون کی خوشبو
سرِ بازار بولے گی
ہزاروں راز کھولے گی