کیا مذاکرات کا کوئی نتیجہ نکلے گا

296

فیصل واوڈا کے انتباہ اور علی امین گنڈا پور کی جانب سے جوابی کارروائی کی دھمکی کے تناظر میں ایک خبر خوش آئند ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا ہے اور طرفین مذاکرات پر کسی نہ کسی طور آمادہ ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جتنی سنجیدگی اب دکھائی گئی ہے اتنی ہی سنجیدگی پندرہ روز قبل دکھا دی گئی ہوتی تو حالات زیادہ بہتر ہوتے ۔ اس مرتبہ بھی مذاکرات کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ ایسے مذاکرات کا وہی حشر ہوگا جو پہلے ہوتا آیا ہے ۔ ایک جانب سے پیشکش ہوئی ہے اور مذاکراتی کمیٹی بھی بن گئی ہے لیکن مطالبات اور حکومت کے موقف میں بہت بڑا فرق ہے ۔پی ٹی آئی فوری انتخابات چاہتی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان نے مل کر آرمی چیف لانے کی پیشکش کی ہے ۔ تحریک انصاف کے فوری انتخاب کے اعلان کو پی ڈی ایم نے مسترد کردیا ہے اور مشترکہ آرمی چیف لانے کے مطالبے کو شہباز شریف نے مسترد کردیا ہے ۔ گویا صرف مذاکرات مذاکرات کا شور ہے عملاً کچھ نہیں، حکومت کی تاخیر کے سبب یہ تاثر بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ لانگ مارچ کے اعلان سے خوفزدہ ہوگئی ہے یا گھبراہٹ کا شکار ہے اسی لیے مذاکرات کی پیشکش کردی۔ اسی لیے یہ کام پہلے کرنا چاہیے تھا۔ اس صورت حال کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ملک میں وہی صورت حال پیدا ہوگئی ہے جو عمران خان کے پہلے لانگ مارچ یا دھرنے کے وقت پیدا ہوئی تھی۔ جلوس پارلیمنٹ کے قریب پڑائو ڈالے رہا، مذاکرات ہوتے رہے ، باتیں ہوتی رہیں اور کام عدالتی حکم نے کیا۔ اب بھی یہی کچھ ہے ، عمران خان کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں اور کسی بھی مقدمے میں انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے ۔ اس معاملے کا دوسرا پہلو زیادہ سنگین ہے وہ یہ ہے کہ پاک فوج، اس کے ادارے اور سربراہان یعنی آرمی چیف اور آئی ایس آئی سربراہ چوک چوراہے پر زیر بحث ہیں۔ نئے آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر اس قدر مباحثہ ہورہا ہے کہ گویا یہ کسی سرکاری ادارے کے ڈی جی کے تقرر کا معاملہ ہے ۔ اس کا تعین کرنا مشکل ہے کہ فوج کو ان معاملات میں کس نے گھسیٹا ہے اور وہ کیوں موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے اور مسلسل بنی ہوئی ہے ۔ لیکن یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ اس کے ذمے دار خود فوجی ذمے داران بھی ہیں۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق، جنرل پرویز مشرف یہ سب اقتدار کے معاملات میں کسی نہ کسی وجہ سے کودے تھے اور سیاست میں مکمل دخیل رہے ، اس کے بعد سے فوج پیچھے اور مہرے آگے ہیں۔ اس وقت بھی کوئی شبہ نہیں کہ اقتدار کی کشمکش میں باہم اْلجھی ہوئی دونوں پارٹیاں یا گروہ فوج کے اپنی پشت پر ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں اور فوج پہلے پی ٹی آئی کی پشت پر ہونے کا اعلان کرچکی، جب یہ کیفیت ہوگی تو فوج موضوع گفتگو بنے گی۔ سونے پر سہاگہ ڈی جی آئی ایس آئی سیاسی امور میں براہِ راست کود پڑے ، اس کے بعد تو گویا سارے ہی بند ٹوٹ گئے ، اب تو عمران خان ڈی جی آئی ایس آئی کو ایسے مخاطب کررہے ہیں جیسے وہ نواز شریف، شہباز اور زرداری کو مخاطب کیا کرتے تھے ۔ ساری خرابی صرف سیاستدانوں میں نہیں ہے بلکہ اب کیفیت یوں ہوگئی ہے کہ جب فوج کسی کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور اکڑتا پھرتا ہے اور پھر جب وہی فوج اس کو اقتدار سے باہر نکالتی ہے تو کہتا ہے مجھے کیوں نکالا۔ یہی معاملہ اب عمران خان کے ساتھ بھی ہے ۔ دونوں میں سے کسی کو بھی اقتدار سے باہر کیا جاتا ہے وہی شکوے کرتا ہے ، اس کی شکایت ، بیانات اور سخت جملوں کے بعد یوں ہوتی ہے کہ فوجی افسران کی پریس کانفرنس کا جواب کہتے ہیں کہ
ہم وفادار نہیں، تو بھی تو دلدار نہیں
اور ان کی وفاداری کسی اصول پر نہیں بلکہ اپنے مفادات کے تابع ہوتی ہے ۔ اب یہ بھی کوئی مذاکرات کا موضوع ہے کہ مل کر آرمی چیف کا تقرر کریں گے ۔ گویا اب سے آرمی چیف کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کردیا جائے ، حکومت اور اپوزیشن مل کر جس کو چاہے آرمی چیف مقرر کردیں، کوئی اصول کوئی ضابطہ نہ رہے ۔ یہ معاملہ بھی پہلے کی طرح قانون اور آئین کے روایات کے تحت طے ہونا چاہیے ۔ اس کو موضوع نہ بنایا جائے تو اچھا ہے بلکہ اس امر پر زور دیا جائے کہ آرمی چیف کے تقرر کا فیصلہ اصولوں کے مطابق کیا جائے ۔ آخر ان لوگوں کو آرمی چیف کے تقرر سے کیا فائدہ اور نقصان ہے ۔ یہ تنازع تو یہ پتا دے رہا ہے کہ مرضی کا آرمی چیف آئے گا تو وہ غیر جانبدار نہیں ہوگا بلکہ وہ حکمرانوں کا وفادار ہوگا۔ آرمی چیف کے وظائف طے شدہ ہیں اور حکومت کا دائرہ کار بھی، پھر اس پر مذاکرات سمجھ سے بالا ہیں۔ جہاں تک انتخابات کی بات ہے قبل از وقت انتخاب کے حالات تو نہیں، صرف سابق حکمران عمران خان اقتدار سے نکلتے ہی یہ مطالبہ کررہے ہیں اور بقیہ مدت حکومت کو کام کرنے ہی نہیں دیا جارہا۔ پھر بھی معاملات ڈائیلاگ سے ہی حل ہوں گے ۔ اگرچہ تینوں گروپ ایک ہی گملے کی پنیری اور ایک ہی مالی کے تراشیدہ ہیں لیکن پھر بھی جو بات منوانی ہو وہ سڑک اور دھرنے کے بجائے میز پر منوائی جائے اور مذاکرات میں یہ ہوتا ہے کہ کچھ معاملات چھوڑنے بھی پڑتے ہیں اور کچھ حاصل ہوجاتا ہے ، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ملکی مفاد کو پیش نظر رکھا جائے ، ذاتی مفادات کو نہیں، یعنی پارٹی کا جس چیز میں مفاد ہے اسے بروئے کار لایا جائے اور جس چیز میں مفاد نہیں اسے چھوڑ دیا جائے ۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ جس مالی نے یہ پودے تراشے ہیں سب کا کنٹرول بھی اسی کے پاس ہے ، ہر ایک کو ایک حد تک آگے جانے کی اجازت ہوتی ہے اور جب فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف ہوجائے تو بھی انہیں ’’میں نہ مانوں‘‘ کہنے کا حق نہیں ہوتا۔ دونوں گروہوں کے سارے تنازع مذاکرات اور بیانات کا مرکز و محور آرمی چیف ہیں۔ پی ٹی آئی کے اتحادی چودھری پرویز الٰہی نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم اور پی ڈی ایم دونوں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں۔ یہ ہے سبب مذاکرات میں یہ نکتہ ڈالنے کا۔ پرویز الٰہی نے تو کہا ہے کہ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع پر بات ہورہی ہے اور نئے الیکشن کی تاریخ میں کامیابی کی کرن نظر آتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے ہر آرمی چیف سے جھگڑا کیا، ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سارا معاملہ آرمی چیف کے تقرر یا توسیع کا ہے ۔ اگر ان باتوں کا جواب بھی آئی ایس آئی کے سربراہ دے دیں کہ فوج اب حقیقتاً سیاست سے کنارہ کش ہے اور آرمی چیف کے دو مرتبہ واضح اعلان کے بعد تو ان کی یہ پریس کانفرنس بھی بنتی ہے کہ ہم سیاست سے عملاً لاتعلق ہیں۔ لیکن کیا ایسا ہے ؟؟ حالات تو یہ نہیں بتارہے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ مہنگائی کم کرنے پٹرول کی قیمت کم کرنے روزگار اور صحت کی سہولیات دینے اور سب سے بڑھ کر کشمیر آزاد کرانے پر کبھی حکومت اور اپوزیشن مذاکرات نہیں کرتے ، قوم کے مسائل تو کچھ اور ہیں لیکن میڈیا ان ہی باتوں کو اصل مسئلہ ثابت کررہا ہے ۔