ادویات کی قیمتوں میں اضافہ

453

ملک میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی بخار کی گولی اور سیرپ کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ اضافہ وزارت خزانہ کی جانب سے اُس وقت کیا گیا ہے کہ جب ادویات ساز کمپنیوں کے مطالبے میں شدت آگئی تھی اور بخار کی گولی اور سیرپ کا بحران سر اٹھا رہا تھا۔ کیونکہ ملٹی نیشنل کمپنی جی ایس کے نے پیناڈول کی پیداوار بند کردی تھی اور اس نے حکومت پاکستان کو تحریری طور پر آگاہ کیا تھا کہ اب اس کے لیے پیناڈول کی دوا کی پیداوار ممکن نہیں ہے، جس کے بعد اس کی مارکیٹ میں دستیابی کم ہوگئی تھی، اور قیمت میں اضافہ ہوگیا تھا اور ذخیر ہ اندوزی شروع ہوگئی تھی۔ کمپنی نے اس ضمن دلیل یہ دی تھی کہ پیناڈول کی پیداوار میں کمپنی کو نقصان کا سامنا ہے کیونکہ اس کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے اس کی پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے اور اب اس کے لیے ممکن نہیں رہا کہ وہ اسے پرانی قیمت پر بیچے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ فیصلے حقائق اور عوام کی سہولت کے لیے نہیں ہوتے بلکہ اپنے مالی مفادات یا سیاسی مفادات کے تحت اشرافیہ فیصلے کرتی ہے جس کا مظہر یہ ہے کہ کچھ دنوں قبل ستمبر میں وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے 10 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ غریب عوام پر ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ نہیں ڈالوں گا اور اس وقت وزیر صحت کا کہنا تھا کہ سیاسی کارکن ہوں، غریبوں کی خدمت میرا نصب العین ہے، غریب عوام پر ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ نہیں ڈالوں گا۔ لیکن یہ بوجھ اب ڈال دیا گیا ہے، اس وقت صرف بخار کی ادوایات کا معاملہ نہیں ہے اخباری خبر کے مطابق کینسر، دل کا دورہ روکنے، ذہنی تنائو، جوڑوں کے درد، دمہ، پھیپھڑوں کے انفیکشن، خون پتلا کرنے والی دوا، ذیابیطس، سینے میں جلن، بلڈ پریشر، اور ہیپاٹائٹس کی ادویات بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔ اسی لیے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونے والا ہے؟ بخار کی ادوایات کی قیمتوں میں اضافے کے لیے ان کی تیاری کی بندش اس بنیاد پر کی گئی تھی کہ خام مال کی قیمت بڑھ گئی ہے تو خام مال کی قیمتیں دوسری ادویات کی بھی بڑھی ہیں لیکن ان کی تیاری تو جاری ہے اور پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے متعلقہ ادارے پیداوری لاگت اور دوا کی قابل فروخت قیمت کے درمیان کمپنیوں کے منافع کو پرکھنے اور جانچے کا کوئی پیمانہ رکھتے ہیں ۔ اس سارے قصے میں اصل بات یہ ہے کہ ریاست اور اس کے اداروںکے کرپٹ نظام کی وجہ سے جس کا جو دل چاہتا ہے وہ کرتا ہے اور چیک و بیلنس کا کوئی نظام موجود نہ ہونے کی وجہ سے کمزور اور عارضی فیصلے ہوتے ہیں، جس کا نتیجہ آج نہیں تو کل عوام کو بھگتنا ہوتا ہے، پہلے ہی ہمارے یہاں دوائیں بہت زیادہ مہنگی ہیں اور اسی طریقے سے دواوں کو مارکیٹ سے غائب کرکے اور تیاری کو روک کر قیمتوں مِیں اضافے کا چلن شروع ہوگیا تو معاملہ کہاں جاکر رُکے گا اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جب کہ پہلے ہی پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن اعلان کرچکی کہ فارما کمپنیاں دوائوں کی تیاری اور قیمتوں کا تعین خود کریں گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جہاں ڈریپ کی کارکردگی بہتر کرنے اور فارماکمپنیوں کے مسائل کو بھی حقیقت پسندانہ طریقے سے دیکھے، وہ اس طرف بھی توجہ دے کہ دوائوں کی تیاری میں خود سرمایہ کاری کرے اور خام مال کامسئلہ حل ہو، بحرحال کچھ بھی ہو حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو سستی دوائیوں کی فراہمی یقینی بنائے۔ ورنہ اگر دوائیں مارکیٹ سے غائب ہوتی رہیں اور مہنگی ہوتی رہیں تو ماہرین یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ کیونکہ پہلے ہی غریب طبقے کو علاج مکمل کروانے میں مشکلات کا سامنا ہے، مزید قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے غریب آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور ملک میں شرح اموات بھی بڑھ سکتی ہیں۔