مسلح افواج کی پریس کانفرنس

363

مناسب وقت پر موزوں ماحول اور ساز گار فضا میں درست اور جاندار اقدام سے موثر و مفید نتائج کی توقع رکھی جا سکتی ہے عین اس وقت جب کہ وطن عزیز کے ایک معروف صحافی کے ایک افریقی ملک کینیا کے شہر نیروبی میں نہایت پر اسرار حالات میں مظلومانہ قتل کے بعد تدفین کے مراحل جاری تھے اور دوسری جانب ایک سیاسی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے جمعہ کے روز سے جذبات و اشتعال سے بھرے ہوئے ایک ہجوم کے ہمراہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جانب لاہور سے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا تھا، اس اضطراب انگیز اور ہنگامہ خیز فضا میں مسلح افواج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے جمعرات کے روز اسلام آباد میں ہنگامی طور پر ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم بابر، جنہوں نے اپنی تعیناتی کے وقت اس پالیسی کا اعلان کیا تھا کہ ان کی تشہیر نہ کی جائے ، وہ بھی اپنا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی بار اس پریس کانفرنس میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے آئے اور یہ وضاحت بھی کی کہ وہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ اپنے ادارے کی خاطر ذرائع ابلاغ کے سامنے آئے ہیں۔ میرے ادارے کے جوانوں پر تہمتیں لگائی گئیں، میں اپنے ادارے، جوانوں اور شہدا کا دفاع کرنے کے لیے جتنا ضروری ہوا، اتنا سچ بولوں گا، ہمارے شہیدوں کا مذاق بنایا گیا، مسلسل جھوٹ سے فتنہ و فساد کا خطرہ ہو تو سچ کا چپ رہنا نہیں بنتا۔
مسلح افواج کے ترجمان اور ڈی جی آئی ایس آئی نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم کمزور ہو سکتے ہیں، ہم سے غلطی ہو سکتی ہے لیکن ہم غدار، سازشی یا قاتل نہیں ہو سکتے، رات کو آرمی چیف سے ملاقاتیں دن کو ان کے خلاف بیانات دیئے جاتے ہیں، اگر آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو ماضی قریب میں ان کی تعریفوں کے پل کیوں باندھے گئے، ایکسٹینشن کیوں دی؟ سپہ سالار غدار ہے تو آج بھی آپ چھپ کر اس سے کیوں ملتے ہیں، یہ سب اس لیے کہا جا رہا ہے کیونکہ ہم نے غیر قانونی کام سے انکار کیا، جھوٹ سے فتنہ فساد کا خطرہ ہو تو سچ کا چپ رہنا نہیں بنتا، ہمارے شہیدوں کا مذاق بنایا گیا، فوج کو کسی لانگ مارچ دھرنے اور احتجاج پر اعتراض نہیں لیکن ملک کو عدم استحکام کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ جھوٹے بیانیہ کے ذریعے قوم کو گمراہ کیا گیا، ملکی اداروں اور آرمی چیف پر بے جا الزام تراشی کی گئی، معاشرے میں تقسیم اور غیر ضروری صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
سائفر کے حوالے سے حال ہی میں کئی حقائق منظر عام پر آئے جس نے کھوکھلی من گھڑت کہانی کو بے نقاب کیا، عمران خان نے پاکستانی سفیر کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا۔ 31 مارچ کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی بھی اس کی کڑی تھی، آئی ایس آئی نے بڑے واضح انداز میں بتایا کہ حکومت کے خلاف کسی قسم کی سازش کے شواہد نہیں ملے۔ اس کے باوجود افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں، جس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا اور مخصوص بیانیہ تشکیل دینا تھا۔ دنیا بھر میں امریکہ کے رجیم چینج کے حوالے دیئے گئے اور اسے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے جوڑ دیا گیا، پاکستان کے اداروں اور بالخصوص فوجی قیادت کو نشانہ بنایا گیا، پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جو کہ آئین پاکستان کے خلاف ہے، نیوٹرل اور غیر سیاسی جیسے الفاظ کو گالی بنا دیا گیا۔ اس تمام جھوٹے بیانیے اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے باوجود ادارے اور آرمی چیف نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ہر ممکن کوشش کی گئی کہ سیاسی رہنما اپنے معاملات آپس میں بیٹھ کر حل کریں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا مارچ کے مہینے میں جب تحریک عدم اعتماد کا معاملہ عروج پر تھا آرمی چیف کو مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی پیشکش گئی، یہ بہت پر کشش پیشکش تھی، آرمی چیف نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ فیصلہ کیا تھا کہ ادارے کو متنازعہ کردار سے ہٹا کر آئینی راستے پر لانا ہے۔ میں یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کا دل مطمئن ہے اور سپہ سالار غدار ہے، تو ماضی قریب میں اتنی تعریفوں کے پل کیوں باندھے گئے، اگر سپہ سالار غدار ہے تو پھر انہیں توسیع کی کیوں پیشکش ہوئی، اگر وہ واقعی غدار ہیں تو ان سے پس پردہ کیوں ملتے ہیں۔ یہ نہ کریں کہ رات کو خاموشی میں بند کمروں میں چھپ کر ملیں، غیر آئینی خواہشات کا اظہار کریں اور دن کی روشنی میں آرمی چیف کو غدار قرار دیں، آپ کے قول و فعل میں اتنا کھلا تضاد ٹھیک نہیں ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ہر شہری کا آئینی حق ہے کہ آزادی سے اظہار رائے کرے۔ ہمارا محاسبہ کریں کہ مگر پیمانہ یہ رکھیں کہ میں نے ملک و قوم کے لیے کیا کیا۔ یہ پیمانہ نہیں ہونا چاہئے کہ میں نے آپ اور آپ کی ذات کے لیے کیا کیا۔ اگر کوئی ملک کے اداروں کے خلاف انگلی اٹھا رہا ہے تو ادارے اس کے خلاف ایکشن لیں گے۔ حکومت اس بارے میں جو بھی ایکشن لے وہ اس کی صوابدید ہے، ہمارا کسی کو گرفتار کرنا صوابدید نہیں ہے۔ ارشد شریف قتل کی کینیا میں انکوائری ہو رہی ہے، میں کینیا میں ہم منصب سے رابطے میں ہوں۔ جو تحقیقات ہو رہی ہیں اس میں حکومت اور ہم مطمئن نہیں ہیں، اسی لیے حکومت نے تحقیقاتی ٹیم کینیا بھیجی ہے۔ وفاقی حکومت نے جوڈیشل کمیشن بھی بنایا میں نے دانستہ طور پر آئی ایس آئی کے ممبر کو کمیٹی سے نکالا تاکہ قوم کے سامنے غیر جانبدار اور سو فیصد شفاف تحقیقات ہوں۔ ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا، وہ واپس آنے کی خواہش رکھتے تھے۔ ان کا اسٹیبلشمنٹ اور مجھ سے بھی رابطہ تھا۔ جب کے پی حکومت نے تھریٹ الرٹ جاری کیا تو ہماری تحقیق کے مطابق ایسا کچھ نہیں تھا۔ ملک کو بیرونی خطرات اور عدم تحفظ سے خطرہ نہیں اگر ہے تو عدم استحکام سے ہے۔
پاک فوج کے ہر دو ذمہ داران کی گفت گو یقینا اپنے ادارہ کے بارے میں معاشرے کے ایک حصے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کے ازالہ کی ایک موثر کوشش ہے تاہم اس کے بعض پہلو کئی نئے سوالات کو بھی جنم دیتے ہیں اس پریس کانفرنس میں بھی ایک سے زائد بار اس کا تذکرہ کیا گیا اور قبل ازیں بھی متعدد بار یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ پاک فوج نے خود کو سیاست سے مکمل علیحدہ کرنے اور اپنے پیشہ ورانہ امور پر تمام تر توجہ مرکوز کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے مگر اسی پریس کانفرنس میں طعنہ زنی کی صورت میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ فوج کے سربراہ کی سیاست دانوں سے رات کے اندھیرے میں ملاقاتوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے،سوال یہ ہے کہ جب آپ نے خود کو سیاست سے الگ رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو آخر ان ملاقاتوں کا جواز کیا ہے ؟کہا جا سکتا ہے کہ یہ ملاقاتیں خود سیاستدانوں کی درخواست پر کی گئیں مگر جب آپ نے خود کو سیاسی امور سے علیحدگی کا ایک اچھا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پھر ایسی درخواست اگر کی بھی جائے تو اس کی پذیرائی کرنے کی بجائے اپنے فیصلے پر سختی سے عمل کیا جانا زیادہ بہتر طرز عمل قرار پائے گا اور اس پریشانی سے بچا جا سکے گا جس سے ہمارا یہ قابل احترام ادارہ دو چار ہے۔ اس ادارہ کے ذمہ داران کو یہ بات پیش نظر رکھنا چاہئے کہ مسلح افواج بہر حال ایک منظم، محترم اور آئینی ادارہ اس کی جانب سے ہر اقدام سوچا سمجھا اور حکمت و تدبر کا آئینہ دار ہونا چاہئے الزام تراشیوں اور جوابی الزام تراشیوں سے حالات بہتر نہیں ہوں گے، ایک منظم ادارے کا طرز عمل کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنما اور کارکنوں سے بہرحال مختلف ہونا چاہئے۔ مسلح افواج کو ہر صورت عوام یا اس کے کسی ایک طبقے کے سامنے کھڑا ہونے یا اس کا تاثر تک پیدا نہیں ہونے دینا چاہئے سیاستدان اگر ایسی صورت حال پیدا کریں تب بھی فوج کو بطور ایک ادارہ ہرحال میں اس سے خود بھی بچنا چاہیے اور قوم کو بھی بچانا چاہئے… سانحہ مشرقی پاکستان سے کم از کم اتنا سبق تو ہم کو سیکھ ہی لینا چاہئے…!!!