طالبان حکومت کو درپیش چیلنجز

447

افغانستان اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جو بیس سال تک امریکا اور اس کے اتحادیوں بشمول کٹھ پتلی افغان حکومت کے زیر قبضہ رہنے اور پچھلے سال اگست میں بیرونی تسلط سے آزادی کے باوجود عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے حالانکہ یہاں پر بننے والی حکومت دنیا کی تمام مروجہ تعبیرات کی روشنی میں ایک برسرزمین حقیقت ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے کہ افغانستان میں طالبان کو حاصل اقتدار نہ تو کسی بون کانفرنس کے ڈھکوسلے کے نتیجے میں ملا ہے اور نہ ہی ان کی یہ حکومت کسی امریکی یا کسی دوسری غیر ملکی قوت کے مرہون منت ہے بلکہ یہ تحریک طالبان کی بیس سالہ غیر متزلزل قربانیوں اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ طالبان حکومت کے حق میں ایک اور قابل تعریف اور بین الاقوامی اصولوں سے ہم آہنگ نکتہ ان کا بغیر کسی خون خرابے اور جنگ وجدل کے برسراقتدار آناہے لہٰذا اصولاً دنیا کو نہ صرف ان کے اقتدار میں آنے کا خیرمقدم کرنا چاہیے تھا بلکہ افغان عوام کے وسیع ترمفاد میں طالبان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم بھی کیا جانا چاہیے تھا لیکن ایسانہ کرکے بین الاقوامی برادری اگر ایک طرف افغان عوام کے مسائل میں اضافے کی باعث بن رہی ہے تو دوسری جانب اس سے طالبان جنہوں نے برسراقتدار آنے کے بعد سے نہ صرف صبر وتحمل کا بھرپور عملی مظاہرہ کیا ہے بلکہ اپنے شدید ترین سیاسی مخالفین کے لیے بھی عام معافی کے اعلان کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ موجودہ طالبان تمام افغان دھڑوں کو ساتھ لیکر چلنے پر یقین رکھتے ہیں کو دیوار سے لگاکر انہیں اشتعال دلانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔
طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے کے حوالے سے مغربی طاقتوں کی منافقت اور دورنگی تو قابل فہم ہے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ طالبان جن کے بارے میں ایک تاثر یہ دیا جاتا رہا ہے کہ وہ بعض علاقائی طاقتوں کے تعاون سے برسراقتدار آئے ہیں اور ان طاقتوں کی سرپرستی کے نتیجے ہی میں طالبان امریکا اور اس کے اتحادیوں کو یہاں سے نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود اور اس خطے میں امریکا اور روس وچین مخاصمت کی واضح مثالوں کے علی الرغم ان قوتوں کا ایک امریکا مخالف حکومت کو تسلیم نہ کرنا خطے کے مسائل کو ایک درست سمت میں حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ اور مشکل تر بنارہا ہے۔ اس صورتحال میں طالبان کے بعد سب سے زیادہ دبائو کا سامنا پاکستان کو ہے جس کی نہ صرف ڈھائی ہزار کلومیٹر لمبی سرحد افغانستان سے ملی ہوئی ہے بلکہ جسے اگر ایک طرف افغانستان کی درآمدات اور خوراک وصحت کی اکثر ضروریات کا بوجھ اپنے معاشی طور پر مضمحل کاندھوں پر اٹھانا پڑ رہا ہے تو دوسری جانب افغانوں کی ایک بڑی تعداد کی پاکستان میں مسلسل موجودگی بھی پاکستان کی اقتصادی اور سماجی مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ لہٰذا ایسے میں پاکستان تن تنہا طالبان حکومت کو تسلیم کر کے نہ تو بین الاقوامی دبائو کا مقابلہ کرسکتا ہے اور نہ ہی پاکستان کے اپنے اندرونی سیاسی اور معاشی حالات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ دنیا کی مخالفت کے باوجود طالبان حکومت کو تسلیم کرلے۔ یاد رہے کہ ماضی میں جب پاکستان نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا تو اس وقت اسے اس امر میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی سرپرستی اور عملی تعاون بھی حاصل تھا لیکن اس دفعہ معاملہ وہ نہیں ہے جو نوے کی دہائی میں تھا اس لیے اس مرتبہ پاکستان کو ہرقدم انتہائی پھونک پھونک کر اور احتیاط سے اٹھانا پڑ رہا ہے۔
اس موقع پر طالبان حکومت کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر کا یہ بیان مبنی برحقیقت ہے کہ طالبان کی عظیم فتح ان گنت قربانیوں اور مشکلات کے بعد حاصل ہوئی ہے لیکن ملا غنی برادر کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی حکومت کو بزور طاقت گرانا تو آسان ہے لیکن حکومت حاصل کرکے اسے عوامی خواہشات اور امنگوں کے مطابق نیز بین الاقوامی حالات کے مطابق چلانا انتہائی دل گردے کاکام ہے۔
طالبان حکمرانوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ان کے برسراقتدار آنے کے خوف سے ایک بڑی آبادی نہ صرف امریکی چھتری تلے افغانستان سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھی بلکہ بہت سارے لوگوں نے امریکی جہازوں کے ساتھ لٹک کر افغانستان سے راہ فرار اختیار کرنے سے بھی د ریغ نہیں کیا تھا۔ واضح رہے کہ افغانستان کے موجودہ حالات کے بارے میں امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ ملک کے 38 ملین افراد میں سے نصف کو انتہائی غربت کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی ٹرنزیکشن پر پابندی اور عالمی سطح پر طالبان حکومت کو تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے افغانوں کو جہاں اندرون ملک بے روزگاری اور دیگر مسائل کا سامنا ہے وہاں انہیں بین الاقوامی سفر میں بھی کئی مشکلات درپیش ہیں۔ ملک میں صحت اور تعلیم کے علاوہ رفاہ عامہ، پبلک ہیلتھ، سماجی بہبود اور مواصلات کا نظام درہم برہم ہے جس کی وجہ معاشی مسائل اور ریاستی اداروں کا ایک سال گزرنے کے باوجود مکمل طور پر فعال نہ ہونا ہے۔ ان حالات میں بلا شرکت غیرے برسراقتدار ہونے کے ناتے سب سے بھاری اور اولین ذمے داری بھی یقینا طالبان کی قیادت پر عائد ہوتی ہے انہیں سوچنا ہوگا کہ وہ افغان قوم کو مایوسی کی دلدل اور اس بحرانی کیفیت سے کیسے نکال سکتے ہیں اس ضمن میں انہیں ہاتھ پر ہاتھ دھرنے کے بجائے جہاں پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان اور ایران کے علاوہ تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہوگا وہاں افغانستان کے معاملات میں دلچسپی رکھنے والے اسلامی ممالک قطر، ترکی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ خطے کی دوبڑی طاقتوں چین اور روس کا اعتماد بھی حاصل کرنا ہوگا۔