اسلامو فوبیا کے خلاف سویڈن سے آواز

512

سویڈن کے عام انتخابات میں اس سال پہلی مرتبہ ایک نئی توانا آواز سامنے آئی ہے اور وہ PARTIET NYANS کے نام سے ہے۔ N.P کے بنیادی مطالبات ہی نے مغرب کے مسلمانوں کو ایک نئی جہت دی ہے اور ان کو سویڈن کے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مطالبات کرنے کا ڈھنگ سکھایا ہے۔ N.P نے بہت واضح اور دو ٹوک الفاظ میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل کی آواز بن کر قرآن اور پیغمبر اسلام کی توہین کو آزادی اظہار کے زمرے سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ پارٹی تین سال قبل قائم ہوئی تھی اس میں پاکستانی، ترک عرب ممالک کے مسلمان اور اقلیتیں بھی شامل ہیں، کچھ مقامی لوگ بھی ان معقول مطالبات کے حامی ہیں، جب کہ پارٹی نے تعلیمی معیار پڑھانے کے ذرائع تلاش کرنے اور سب کے لیے یکساں مواقع کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ N.P نے سودی نظام کی بنیاد اور اس کے مضمرات سے آگاہ کرنے کے لیے تحقیق اور معاشی پالیسیوں میں اس کے مطابق تبدیلی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ این پی کی کامیابی کا امکان تو بہت کم ہے لیکن سویڈن اور بعض دوسرے ممالک کے مسلمان اس بات سے سخت پریشان تھے کہ اپنے بچوں پر ذرا بھی قدغن لگائی یا ان کی بات نہ مانی تو LUV کے لوگ بچے کو چھین کر لے جاتے ہیں اور غیر مسلم گھرانے میں اس کی پرورش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی نسل خراب ہورہی تھی۔ این پی کے اس مطالبے پر دیگر اقلیتیں بھی اس کی حامی ہیں۔ یہ سب کچھ گھریلو تشدد کے زمرے میں ڈال کر مسلم آبادی بڑھنے سے روکی جارہی ہے۔ مزید برآں اسلاموفوبیا اور نسلی امتیاز کے خلاف یورپ سے آواز اٹھانا اور نہایت منظم طریقے سے کام کرنا دنیاکے دوسرے ممالک کی مسلم تنظیموں کے لیے مشعل راہ ہے۔ خصوصاً جہاں مسلمان تنظیمیں منظم ہیں اور برسوں سے قائم ہیں۔ سویڈن کے انتخابات سے سیکھنے کے لیے پاکستان کو بھی بہت کچھ مل سکتا ہے۔ وہاں کی پارلیمنٹ کے 349 ارکان کا انتخاب ہوا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جس روز مرکزی الیکشن ہوئے اسی روز علاقائی اور بلدیاتی الیکشن بھی ہوگئے۔ نہ محکمہ موسمیات کی مدد لینی پڑی نہ محکمہ زراعت درمیان میں آیا۔ علاوہ ازیں سب سے اہم بات اس ملک کے انتخابات میں 81 فیصد سے زاید ووٹرز نے ووٹ ڈالا اور سویڈن میں بھی متناسب نمائندگی کا نظام موجود ہے یہ نظام نہایت پرسکون طریقے سے چل رہا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انتخابی عمل میں کسی اور ادارے کا دخل نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے کبھی نتائج تبدیل ہوتے ہیں کبھی الیکشن کے فوراً بعد میں نہ مانوں کے نعرے کے ذریعے احتجاجی مہم اور تحریک شروع ہوجاتی ہے۔ دھرنے، جلوس جلسے اور آخر کار حکومت کا خاتمہ ہوجاتا ہے جو کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے زہر ہے۔