پاکستان اقوام متحدہ کے عمل کا منتظر

477

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوںکا دورہ کیا اور جو تاثرات بیان کیے وہ نہایت چشم کشا ہیں۔ انہوں نے سیلاب سے نقصانات کو تصور سے زیادہ قرار دیا۔ اور کہا کہ قدرتی آفات سے نمٹنا ممکن نہیں لیکن موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات ہوسکتے ہیں۔ مزید تباہی کا انتظار نہیں کرسکتے۔ انہوں نے اصل مسئلے کی طرف بھی نشاندہی کی اور کہا کہ گلوبل وارمنگ دوسروں کی غلطی ہے اس کی سزا پاکستان بھگت رہا ہے۔ انہوں نے اپیل کی کہ عالمی برادری پاکستان میں بحالی کے کام میں مدد دے۔ انتونیو گوتریس نے کہا کہ جی 20 ممالک کی صنعتی ترقی نے ماحول پر منفی اثر ڈالا، اس کا ازالہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے پاس اتنی بڑی تباہی سے نمٹنے کے وسائل نہیں ہیں، انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ انتونیو گوتریس کے دورے کا پاکستان کی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوںکو بھی انتظار تھا۔ انہوں نے سندھ بلوچستان کے مختلف اضلاع کا دورہ کیا اور خیمہ بستیوں میں متاثرین سے گفتگو بھی کی اور متاثرہ علاقوںکا فضائی جائزہ بھی لیا۔ انتونیو گوتریس کے دورے کے بعد یقینا عالمی برادری حرکت میں آئے گی اور اس بڑے پیمانے پر مدد کی جائے گی جو بحالی نہیں کرسکے تو کم از کم ان کے لیے بہت کچھ ہوسکے گا۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اس چیلنج کے حوالے سے کہا ہے کہ وفاق صوبوں کی مدد کررہا ہے اور وزیرخارجہ بلاول زرداری نے بھی توقع ظاہر کی ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا دورہ عالمی برادری کو متحرک کرتے ہیں معاون ثابت ہوگا۔ اقوام متحدہ کا اس ریلیف آپریشن کے لیے متحرک ہونا اور عالمی برادری پر زور دینا خوش آئند ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کے طریقہ کار میں اختلاف یا تضاد بہت واضح ہے۔ اگر اقوام متحدہ کو امریکا کی جانب سے کسی ملک میں دہشت گردی نیٹ ورک کی موجودگی کا شبہ بھی ظاہر کردیا جائے تو اقوام متحدہ اس ملک کے خلاف کارروائی کرنے کی منظوری دیتا ہے۔ کیوں کہ دہشت گرد نیٹ ورک سے لوگوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے، دونوں باتوں کا مرکز و محور شبہ اور خدشہ ہوتا ہے لیکن اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور عالمی برادری راتوں رات متحرک ہو کر قرار دادیں منظور کرکے کارروائی کی اجازت دیتی ہے اور اجازت سے قبل ہی کارروائی شروع ہوجاتی ہے۔ جب کہ سیلاب میں کوئی شبہ نہیں اس کے اسباب میں بھی کوئی شک نہیں اور نتائج بھی سب کے سامنے ہیں۔ اس اعتبار سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا دورہ تاخیر سے ہوا اور کارروائی اب بھی شروع نہیں ہوسکی، ابھی اپیل کی گئی ہے۔ یقینا گوتریس جب خصوصی اجلاس بلا کر یا کوئی خصوصی ہدایت جاری کریں گے تو امدادی کارروائی کی رفتار تیز ہوسکے گی۔ انتونیو گوتریس نے جس گلوبل وارمنگ کی ذمے داری ترقی یافتہ ممالک پر عائد کی ہے اس کا ازالہ کرنے کو تو کہا ہے لیکن یہ ایک مستقل کام ہے۔ تمام ممالک پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اپنے حصے کے مطابق مدد دیا کریں اور یہ ایک مستقل کام ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو کسی اگلی آفت کے موقع پر اقوام متحدہ کے یہی یا کوئی اور سیکرٹری جنرل پاکستان کا دورہ کرکے عالمی برادری سے اپیلیں کررہے ہوں گے۔ لہٰذا جی 20 اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا ایسا کوئی ٹیکس یا رضا کارانہ فنڈ قائم کیا جانا چاہیے جو پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں استعمال ہوسکے۔ ایسے فنڈ کی نگرانی بھی اقوام متحدہ خود کرے کیوں کہ یہ ایک مستقل کام ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دورے میں جس رفاہی تنظیم کو شریک کیا گیا وہ بلاشبہ الخدمت فائونڈیشن ہے جس کے صدر عبدالشکور نے تفصیلی ملاقات کی اور انہیں الخدمت کی ریلیف اور بحالی کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ الخدمت کے کئی ہزار رضا کار پورے ملک کے طول و عرض میں متاثرین کو ریلیف پہنچا رہے ہیں۔ پکا پکایا کھانا، صاف پانی، راشن، خیمے اور طبی سہولیات ڈاکٹرز کے ذریعے مصروف عمل ہیں۔ سیکرٹری جنرل نے الخدمت کی کارکردگی کو سراہا اور ایک اہم نکتے کی طرف نشاندہی کی کہ اگر پاکستانی قوم اپنے سیاسی معاملات کو سلجھانے میں کامیاب ہوجائے تو اس کے عظیم قوم بننے کے امکانات بہت روشن ہیں۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جو پاکستانی قوم کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے سیاسی معاملات کو کیسے سلجھاسکتی ہے ہیں۔ ان کے بیشتر مسائل کا سبب یہی سیاسی مسائل ہیں غلط لوگوں کا انتخاب اور حقیقی نمائندوں کی پہچان میں غلطی پاکستان کو پیچھے لے جارہی ہے۔ یہ نکتہ سمجھنے اور قوم کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ کم از کم ان لوگوں کو پہچانیں جو ان کے ووٹوں سے اقتدار میں آتے ہیں۔ اور اپنے زمینیں بچانے کے لیے نہروں میں شگاف ڈال کر نہیں ڈبودیتے ہیں۔