مفتاح اسماعیل صاحب قرض کیوں نہیں ملتا

458

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پھر کہا ہے کہ دنیا اب ہمیں قرض نہیں دیتی اور یہ کہہ کر انہوں نے مزید ٹیکس لگانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے ایک بار پھر دیگر حکمرانوں کی طرح قوم کو یورپ امریکا کی مثالیں دینا شروع کردیں۔ کہتے ہیں کہ بجلی کے بل بہت بڑھ گئے ہیں۔ جرمنی اور فرانس میں یونٹ 250 روپے کا ہے ہم نے پیٹرول اور ڈیزل پر 650 ارب روپے سبسڈی دی ہے مزید ایل پی جی نہیں خرید سکتے۔ درآمد کی ایل سی کھولنے کے حق میں نہیں ہوں۔ یہ بات مفتاح اسماعیل شوکت ترین حفیظ شیخ اور اسحق ڈار سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ دنیا پاکستان کو اب قرض دینے کو کیوں تیار نہیں ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ ایک حکومت دوسری یعنی پچھلی حکومت کے معاہدوں کی پاسداری کرنے کو تیار نہیں۔ ہرآنے والا حکمران اپنی نئی پالیسی لاتا ہے اور پالیسی بھی کیا ہوتی ہے وہ تو بس دوسرے کو ناکام ثابت کرنے کا حربہ ہوتی ہے جب تک ہم سابق حکمرانوں کی پالیسی کو ناکام بنانے اور اس کے منصوبوں کو بند کرنے کے طریقے پر کاربند رہیں گے اس وقت تک یہی ہوتا رہے گا مفتاح اسماعیل اور اس طرح کے دوسرے وزراء جرمنی اور فرانس میں بجلی کے یونٹ کی مثال دے رہے ہیں لیکن یہ بھی تو بتائیں کہ جرمنی اور فرانس کے حکمران اپنے عوام کے لیے کیسے ہوتے ہیں اور ان کی زندگی اپنے عوام کے مقابلے مین کس قدر شاہانہ ہوتی ہے اب تو دنیا نے دیکھ لیا کہ ایک حکمران اپنے چل چلائو کو دیکھ کر دوسرے کے لیے بارودی سرنگیں بچھاتا ہے اور آئی ایم ایف سے معاہدے کے باوجود چھ ماہ تک پیٹرول کی قیمتیں نہ بڑھاکر مصنوعی ریلیف دیتا ہے جو بعد والوں کے لیے مصیبت بن گیا اس کا جواب تو مفتاح صاحب ہی دیں کہ دنیا قرض کیوں نہیں دیتی اور سوال یہ ہے کہ قرض لینا ہی کیوں ہے۔ ملکی وسائل کا منصفانہ استعمال کریں تعیشات بند کریں مقامی صنعت کو فروغ دیں برآمدات کی حوصلہ افزائی کریں قرض لینے کے بجائے دینے لگیں گے۔