عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی

488

عدالت عالیہ اسلام آباد نے خاتون ضلعی جج کو تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیر اعظم عمران خاں کی جانب سے دھمکیاں دیے جانے سے متعلق توہین عدالت کے معاملہ میں عمران خاں کا جواب غیر تسلی بخش قرار دے کر مسترد کر دیا ہے اور دو ہفتے بعد 22ستمبر کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ منصف اعلیٰ اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے آٹھ ستمبر کو کیس کی سماعت کے بعد متفقہ طور پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ صادر کیا۔ اس معاملہ کی ایک ہفتہ قبل سماعت کے موقع پر بھی عدالت نے عمران خاں کے جواب کو مسترد کرتے ہوئے انہیں سوچ سمجھ کر معاملہ کی نزاکت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دوبارہ جواب داخل کرنے کی مہلت دی تھی۔ جمعرات آٹھ ستمبر کو دوبارہ سماعت کے آغاز پر سابق وزیر اعظم کے وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ایک روز قبل ضمنی جواب جمع کرا دیا ہے، ہم یہ معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں عدالت نے ہمیں ایک اور موقع دیا جس پر ہم نے نہایت احترام سے گزارشات پیش کر دی ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے 2014ء کے فیصلے میں جو رہنما خطوط متعین کیے تھے میں ان پر دلائل دوں گا۔ عدالت عالیہ کے منصف اعلیٰ اطہر من اللہ نے اس پر کہا کہ آپ ہم پر تنقید کریں ہم کارروائی نہیں کریں گے۔ مگر یہ کرمنل توہین ہے ہم ماتحت عدلیہ کا وقار مجروح کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، آپ کا ضمنی جواب غور سے پڑھا، ہم عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے پابند ہیں مگر کرمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس میں آپ کوئی توجیح پیش نہیں کر سکتے، ہم آزادی اظہار کے محافظ ہیں مگر اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، عدلیہ کی آزادی اور ماتحت عدلیہ ہماری سرخ لکیر ہے۔ آپ نے اپنے جواب میں جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے کیا کوئی سابق وزیر اعظم یہ توجیح پیش کر سکتا ہے کہ اسے قانون کا علم نہیں تھا جرم انتہائی سنگین ہے جس کا احساس نہیں ہوا۔ کیا کسی کی انا عدالتی وقار سے اہم ہے۔ معاملہ کی طویل سماعت کے دوران عمران خان اور ان کے وکیل حامد خان کے علاوہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، عدالتی معاونین سینئر وکلا منیر اے ملک اور مخدوم علی خاں، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل، اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر شعیب شاہین، پاکستان بار کونسل کے اختر حسین اور دیگر بھی عدالت میں پیش ہوئے، سماعت کے دوران مختلف آئینی ماہرین کی جانب سے متعدد ملکی اور بین الاقوامی معاملات میں توہین عدالت کی کارروائیوں میں عدالتوں کے طرز عمل کے حوالے بھی پیش کیے گئے۔ عدالت کی جانب سے مقرر کیے گئے، معاون ماہرین قانون، منیر اے ملک اور مخدوم علی ملک نے عدالت میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے معزز جج صاحبان سے درگزر سے کام لینے اور توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی استدعا کی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے خود بھی کھڑے ہو کر وضاحت پیش کرنے کی اجازت چاہی مگر منصف اعلیٰ اطہر من اللہ نے یہ کہہ کر اجازت نہیں دی کہ آپ کے وکلا کے دلائل سن لیے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے اس ضمن میں اپنے حکم میں لکھا کہ عمران خان کا جواب تسلی بخش نہیں، ہم مطمئن نہیں کہ عمران خاں خود پر لگا توہین عدالت کا الزام ہٹانے میں کامیاب رہے، اس لیے آئندہ سماعت پر 22 ستمبر کو اڑھائی بجے دن عمران خان پر فرد جرم عائد کی جائے گی…!
اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں زیر سماعت ’توہین عدالت‘ کا یہ معاملہ بلاشبہ حساس نوعیت کا اور نہایت اہمیت کا حامل ہے جس کے براہ راست اثرات ملک کے مستقبل پر بھی مرتب ہوں گے۔ جناب عمران خان عام آدمی نہیں وہ ملک کے سابق وزیر اعظم ہیں جو اہم ترین انتظامی منصب ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ مقبولیت کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی شخصیت اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ بھی ہیں۔ یوں وہ ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے منصب کے امیدوار اور شب و روز اس کے لیے کوشاں ہیں جو ان کا ایسا حق ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا تاہم انہیں اپنے اس سیاسی قد کاٹھ کی نزاکت اور ذمے داریوں کا احساس بھی ہونا چاہیے۔ جن کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنی زبان سے کوئی لفظ ادا کرنے سے پہلے سو بار سوچیں اور بولنے سے قبل بار بار اپنے الفاظ کو تولیں۔ انہیں بہر قیمت غیر ذمے دارانہ طرز عمل سے احتراز کرنا چاہیے اور احتیاط کا دامن کسی صورت چھوڑنا نہیں چاہیے لیکن پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ عمران خاں کی طرف سے اپنی ان نازک ذمے داریوں کے احساس میں مسلسل کوتاہی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، ان کی ہر تقریر غیر محتاط رویہ کی عکاسی کرتی ہے، ملک کے قومی اداروں کا احترام چھوٹے بڑے ہر شہری پر واجب ہے مگر عمران خان کی تقاریر اور گفت گوئوں میں اپنے مخالف سیاسی رہنمائوں ہی کو نہیں، اہم آئینی و قومی اداروں اور ان کے ذمے داروں کو بھی مسلسل ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے حالانکہ ایک مقبول رہنما کی حیثیت سے ان کی ذمے داری نہ صرف یہ ہے کہ وہ خود نامناسب لب و لہجہ سے گریز کریں بلکہ اپنے کارکنوں اور پیروکاروں کی اخلاقی تربیت اور طرز عمل کی اصلاح بھی ان کے فرائض میں شامل ہے کیونکہ جس حقیقی آزادی سے قوم کو روشناس کرانے کے عمران خاں دعویدار ہیں اس کا اولین تقاضا اپنی ذمے داریوں کا احساس اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا اور ان کی عزت و احترام برقرار رکھنا بھی ہے چونکہ تحریک انصاف کے قائد کا اپنا رویہ بھی عموماً خاصا غیر محتاط اور قابل اعتراض رہتا ہے اس لیے ان کے پیروکار خصوصاً سماجی ذرائع ابلاغ پر فعال ان کے کارکنان سے متعلق یہ شکایت عام ہے کہ وہ مخالفین سے متعلق نا مناسب بلکہ بعض صورتوں میں غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں جس کی کسی صورت تائید و توصیف نہیں کی جا سکتی۔ عمران خان کو خود بھی اس ضمن میں اپنے رویے پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنا چاہیے اور اپنے کارکنوں اور پیروکاروں کی اصلاح و تربیت کا بھی مناسب اہتمام لازماً کرنا چاہیے تاکہ ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے جس سنجیدگی کی ضرورت ہے، تحریک انصاف کے کارکنان و قائدین اس سے بہرہ ور ہو سکیں…!
جہاں تک عدالت عالیہ اسلام آباد میں عمران خان کے خلاف جاری توہین عدالت کی کارروائی کا تعلق ہے، اس ضمن میں اولین گزارش تو یہی ہے کہ یہ اس قسم کا پہلا واقعہ نہیں قبل ازیں عمران خان نے تقریباً آٹھ برس قبل بھی اعلیٰ عدالتوں سے متعلق ’’شرمناک‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا جس پر عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس کے تحت کارروائی کی تھی مگر عمران خان نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی تھی اور معاملہ ختم ہو گیا تھا۔ غلطیاں انسانوں ہی سے ہوتی ہیں جن کو تسلیم کرنے اور معافی طلبی سے انسان کی عزت کم نہیں ہوتی بلکہ اعتراف اور معذرت سے اس کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے اب بھی با عزت راستہ یہ تھا اور یہی ہے کہ عمران خان انا پرستی کا شکار ہونے کے بجائے غلطی کا دو ٹوک اعتراف کر کے غیر مشروط معافی طلبی ہی کا راستہ اختیار کریں۔ اس مرحلہ پر عدالت عالیہ سے بھی یہ گزارش نامناسب نہ ہو گی کہ اس کی جانب سے سنائی جانے والی کسی سزا کو کسی مقبول عوامی رہنما کا راستہ روکنے کا سبب بہرحال نہیں بننا چاہیے کہ ماضی میں عدالتوں کو اس ضمن میں حرف گیری کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔