امن کے لیے اسلامی قوانین کا نفاذ ضروری ہے

447

پاکستان میں قدرتی آفات کے موقع پر عام طورپر جرائم کی شرح بہت کم ہو جاتی ہے۔ امدادی فنڈز اور سامان کی خوردبرد تو سننے میں آتی تھی لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ ملک بھر میں اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہو گیا ہے۔ خصوصا کراچی کے بارے میں تو ہر طبقے نے آواز اٹھائی ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت نے کراچی کے شہریوں کو ڈاکوئوںکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ حافظ نعیم تو سیاسی آدمی ہیں حکومت اس کا سیاسی مطلب لے سکتی ہے لیکن کراچی کے معروف تاجر سینیٹر حسیب خان کو تو حکومت سن لے جنہوں نے کہا ہے کہ اسٹریٹ کرائم ناسور بن چکا ہے۔ عوام میں ڈاکوئوں اور لٹیروں سے نمٹنے کی طاقت بھی نہیں اور اس کی تربیت بھی انہیں نہیں دی گئی۔ حسیب خان نے اپنے زیرانتظام ایک وکیشنل ٹریننگ سینڑ کے خصوصی بچے کی پذیرائی کی تقریب میں کہا کہ اگر قوم کو تربیت دی جائے تو چوروں اور ڈاکوئوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ لیکن اس سے جانی اور جسمانی نقصان بڑھنے کا خدشہ ہے۔ بعض لوگ تجویز دے رہے ہیں کہ اب لوگوں کو اپنے پاس بھی اسلحہ رکھنا چاہیے تا کہ ضرورت پڑنے پر جوابی کارروائی کی جا سکے۔ یہ درست ہے کہ جب مجرم کو یہ خدشہ ہو کہ سامنے سے بھی فائر ہو سکتا ہے تو وہ ہر جگہ آسانی سے واردات نہیں کرتے لیکن کیا وجہ ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے حصے کا کام نہیں کر رہے۔ اگرچہ پولیس رینجرز وغیرہ ہر جگہ نگرانی نہیں کر سکتے لیکن انہیں وہ سارے مقامات معلوم ہونے چاہیے جہاں واردات ہو سکتی ہے۔ کراچی میں رینجرز اور پولیس برسوں سے ڈیوٹی دے رہے ہیں ان پر ڈیڑھ کھرب روپے کا بجٹ خرچ ہو رہا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ سال کے پہلے 8 ماہ میں 56 ہزار وارداتیں ہو گئیں۔ یہ وارداتیں بھی وہ ہیں جو رپورٹ ہو گئیں لوگ ہر چوری ڈاکے کی رپورٹ پولیس کو نہیں دیتے اسی طرح ان وارداتوں میں 350 شہری قتل ہو گئے ان میںسے مزاحمت پر قتل ہونے والوںکی تعداد بھی 67 رہی ہے پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق 35 فیصد وارداتوں میں نجی سیکورٹی کمپنیوں کے گارڈز ملوث ہوتے ہیں۔ ایسا بھی ہے لیکن اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ پولیس اہلکار اور افسران بھی ان جرائم میں ملوث ہوتے ہیں اور اس کا باقاعدہ ثبوت بھی سامنے آچکا ہے۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ عوام کو وراداتوں سے نمٹنے کی تربیت دی جائے نقصانات میں اضافے کا سبب بنے گا۔ اصل سوال یہی ہے کہ ڈیڑھ کھرب کابجٹ محض تنخواہ پر ہی صرف کیا جارہا ہے عوام کو کیا تحفظ مل رہا ہے۔ تحفظ دینا ریاست کی ذمے داری ہے عوام تاجر اور نوجوان اپنا تحفظ کرنے کے پابند نہیں۔ جرائم میںاضافے اور مجرموں کے حوصلے بلند ہونے کا اصل سبب دل سے سزا کا خوف نکل جانا ہے اور سزا کا خوف اس لیے نکل رہا ہے کہ انہیں ان کے جرم کی سزا نہیں مل رہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا اور قاتل کی سزا موت ہے اور سرعام سزا کا حکم ہے۔ مغرب کے خوف سے شرعی سزائیں بھی نہیں دی جاتیں۔ سعودی عرب میں ایک زمانے میں سال میں 18 مجرموں کے سر قلم ہوتے تو ایک کروڑ 80 لاکھ کی آبادی سکون سے ملک بھر میںگھومتی تھی اب تین کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ آبادی ہے اور اسلامی قوانین اور حدود کے نفاذ سے وہ بھی پہلو تہی کر رہے ہیں نتائج وہاں بھی ایسے ہی ہیں۔ لہٰذا اسلامی حدود کا نفاذ ہی لوگوں کو امن دے سکتا ہے۔ اسی میں زندگی ہے۔ جو لوگ اسلامی قوانین کو حدود اللہ کو وحشیانہ سزائیں قرار دیتے تھے وہ کسی نہ کسی وحشی حملے میںہلاک ہو گئے اگر اس معاملے میں بے نظیر بھٹو کی مثال دی جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کیونکہ وہ بھی اسلامی سزائوں کو وحشیانہ سمجھتی تھیں اگر اسلامی سزائیں نافذ ہوتیں تو ان کے قاتلوںکو بھی یہی انجام بھگتنا پڑتا لیکن یہاں تو قید کی سزا بھی دہشت گردوں مجرموں قاتلوں اور تخریب کاروں کو نہیںدی جاتی وہ بھی ضمانت پر گھومتے رہتے ہیں بڑے بڑے لوگوں کے قال صرف اس لیے بچ گئے کہ انہیں انگریز کے تعزیراتی قوانین کی چھتری میسر تھی۔ پیچیدہ عدالتی نظام نے بڑے بڑے مجرموں کو اعلیٰ عہدوں اور مناصب پر پہنچا دیا۔ اگر جرائم کے دوسرے شعبوں کو دیکھیں تو پاکسان میں وزیراعظم ان کی مخالف پارٹی کا سربراہ، پنجاب کا سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی ایم کی رہنما ضمانت پر ہیں اور مزے سے سیاست کر رہے ہیں یہ لوگ بھی کسی نہ کسی جرم کے ملزم ہیں لیکن ان کا فیصلہ ہے کہ رونا ہی نہیں پیشیاں سماعتیں تاریخیں گواہیاں جرح اور اگلی تاریخ تک سماعت ملتوی۔یہ ساری چیزیں اسلامی تعزیری قوانین کے نفاذ سے ختم ہو جائیں گی۔