اسلحے سے پاک معاشرے کا خواب

386

پشاور پولیس نے اسلحہ سے پاک پشاور مہم اور سماج دشمن عناصر کیخلاف کریک ڈائون مزید تیز کرتے ہوئے رواں سال کے دوران مجموعی طور پر ساڑھے 4 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے جدید خود کار ہتھیار برآمد کیے ہیں، جبکہ دہشت گردی کے بھی کئی منصوبے ناکام بنائے گئے ہیں۔ اس ضمن میں ایس ایس پی آپریشن کاشف آفتاب عباسی کا کہنا ہے کہ پشاور پولیس کی جانب سے شہر میں قیام امن کو یقینی بنانے اور سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث افراد کو نکیل ڈالنے کی خاطر ہیومن انٹیلی جنس کو مزید فعال کرنے سمیت دیگر اہم اداروں کے ساتھ بھی کوآرڈی نیشن کو مزید مربوط اور منظم کیا گیا ہے جس کے تحت انفارمیشن شیئرنگ سمیت مشتر کہ کارروائیاں بھی عمل میں لائی جارہی ہیں دیگر اہم اقدامات سمیت روزانہ کی بنیاد پر انفارمیشن بیسڈ سرچ اینڈ اسٹرائیک آپریشنز کا سلسلہ بھی جاری ہے تاکہ سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث عناصر کو اپنے مذموم مقاصد میں ناکام بنایا جا سکے ایس ایس پی نے جاری کریک ڈاون کے تحت ہونے والی کارروائی پر اطمینان کا اظہار کیا اور اسلحہ کی نمائش میں ملوث عناصر کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں جاری رکھنے کا عزم ظاہرکیا ہے۔
ہمارے معاشرے میں تشدد اور اسلحے کے استعمال اور نمائش کی تاریخ تو بہت پرانی ہے لیکن گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس کلچر میں جس بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے وہ یقینا جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے وہاں یہ معاشرے کے لیے بھی ایک بڑے ناسور کی شکل اختیارکرتا جارہا ہے۔ پاکستان بھر میں بالعموم اور خیبر پختون خوا میں بالخصوص آتشیںاسلحے کے استعمال کا اندازہ میڈیا میں روزانہ تھوک کے حساب سے شائع اور نشر ہونے والے تشدد اور بدامنی کے واقعات پر مبنی خبروں سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں اسلحے کا یہ کلچر عام ہونے کی وجوہات کیا ہیں اور اس وبا کا ذمے دار آخر کون ہے۔ دراصل ہمارے ہاں چونکہ مسائل کو معروضی نظر سے دیکھنے کے بجائے سطحی اور عارضی بنیادوں پر دیکھنے کا رواج ہے اس لیے ہمارے ہاں پائے جانے والے کئی دیگر بے پناہ مسائل کی طرح اسلحے کے بے دریغ پھیلائو اور استعمال کے پیچھے بھی یہی ذہنیت کار فرما ہے۔ انگریزی سامراج سے آزادی کے بعد ہم نے چونکہ اپنے ہاں اداروں کے قیام اور استحکام نیز معاشرے کے اندر برداشت، سماجی انصاف، ریاسی نظام میں عام شہریوں کی شمولیت، ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور سب سے بڑھ کر پاکستانی عوام کے اندر انہیں ایک قوم بنانے کا جزبہ اور داعیہ پیداکرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اس لیے آزادی کے 75سال بعد بھی ہمارے ہاں نہ تو سیاسی استحکام اور سیاسی بلوغت کے آثار دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی سماجی اور معاشی سطح پر بہتری کے کچھ آثار دکھائی دے رہے ہیں بلکہ ہرآنے والا دن ہمارے لیے مصیبت اور رسوائی کے ایک نئے پیغام کے ساتھ طلوع ہورہا ہے۔
دراصل ہمارے ہاں چونکہ ذمے داریاں قبول کرنے کا کلچر پروان نہیں چڑھ سکا اس لیے زندگی کے ہر شعبے حتیٰ انفرادی زندگی میں بھی ہم بلیم گیم کے رجحان کے شکار نظر آتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر معاشرے میں اسلحہ کلچر کے فروغ پر بات کی جائے تو ہمیں اس حوالے سے بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملیں گی۔ پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ اپنے مخصوص نظریات کا اسیر ہوکر محض اپنے سیاسی اور گروہی مفادات کے لیے وطن عزیز میںاسلحہ کلچرکے پھیلائوکا ذمے دار ایک مخصوص دور حکومت کو قرار دیتا ہے لیکن اس طبقے کے پاس اس موضوع پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے سوا اس مرض کی تشخیص اور سدباب کے لیے نہ تو کوئی وژن اور احساس ہے اور نہ ہی یہ طبقہ اس مسئلے سے نمٹنے میں اپنا کوئی کردارادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ بالفرض معاشرے میں اسلحہ کلچر کے پھیلائوکے حوالے سے ان کے نقطہ نظر کو مان بھی لیا جائے تو ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ اس اجتماعی کوتاہی پرگرفت اور اس میں مبینہ طور پر ملوث قوتوں کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے اب تک کون سا عملی قدم اٹھایا ہے۔ کیا اس حقیقت کو کوئی نظر انداز کر سکتا ہے کہ اس وقت دیہات کی نسبت شہروں میں غیر قانونی اسلحے کی بھرمار کہیں زیادہ ہے۔ کیا یہ تلخ حقیقت ہمارے علم میں نہیں ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ غیر قانونی اسلحے کی موجودگی کی اطلاعات آئے روز خبروں کی زینت بنتی رہتی ہیں لہٰذا پاکستان کی معاشی شہ ر گ کہلانے والے اس منی پاکستان کو غیرقانونی اسلحے سے پاک کرنے کے لیے کیا سنجیدہ اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
جہاں تک پشاور کو اسلحے سے پاک کرنے کے حوالے سے خیبر پختون خوا پولیس کی کاوشوں اور ان کے عزم کا تعلق ہے وبظاہر تو ایک مستحسن قدم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پشاور کو اسلحے سے مستقل پاک کرنے کے لیے کیا محض چند روز کی ایک عارضی مہم نتیجہ خیزثابت ہوسکتی ہے؟ جس کا جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ پشاور اور اس کے گرد نواح میں بد امنی اور خاص کرقتل مقاتلے، بھتا خوری، قبضہ گروپوں کی وارداتوں، چوریوں، ڈاکا زنی، راہزنی اور ٹارگٹ کلنگ کے جرائم کے پیچھے اصل محرک اور وجہ غیر قانونی اسلحہ کی فراوانی اور اس کی کھلم کھلا نمائش اور استعمال ہے جس سے شاید کسی کو بھی انکار کی جرأت نہیں ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بڑے پیمانے پر اسلحہ کی غیر قانونی موجودگی پر قابوپانے میں کامیاب ہوجائیں تو اس سے نہ صرف متذکرہ جرائم کی شرح خود بخود انتہائی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی بلکہ اس طرح ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ایک نسبتاً بہتر اور پرامن معاشرے کی بنیاد رکھنے میں بھی کامیاب ہوسکیں گے۔