حق دو کراچی کو

468

جماعت اسلامی نے اتوار کے روز یونیورسٹی روڈ پر حق دو کراچی کو مارچ کیا اور یہ مارچ اس قدر پر جوش اور بھرپور تھا کہ حقیقی معنوں میں حکومت کے ایوانوں کے درودیوار ہل گئے۔ ٹوٹے پھوٹے کراچی کے ہر علاقے سے ہر شعبہ زندگی کے لوگوں کی بڑی تعداد اس مارچ میںشریک تھی۔ ہر زبان بولنے والا موجود تھا اور بہت سی دوسری تنظیموں کے لوگ بھی تھے۔ کیونکہ یہ کراچی کا مسئلہ ہے۔ یہ کراچی صاف ستھرا، پرامن اور پر سکون ہوگا۔ یہاں صنعتوں کو پروان چڑھایا جائے گا تو پیداوار بھی بڑھے گی اور ملک بھی ترقی کرے گا۔ کراچی میں ملک کے کونے کونے سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں یہ بین الاقوامی شہر ہے اس کو پاکستان کی شناخت کہا جاے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس کراچی پر ظلم اتنا ہوا ہے کہ بیان سے باہر ہے اس کی سڑکیں شاہراہیں اور گلیاں اس ظلم کی گواہ ہیں اس کے پارک ویران کر دییے گئے اس کی روشنیاں گل کر دی گئی ہیں اور اب بھی اسے تباہ کرنے والے معصوم بن کر ووٹ مانگنے کھڑے ہیں لیکن ان سب کو جنہوں نے کراچی کو تباہ کیا ایک آواز نے چیلنج کر دیا اور وہ آواز حافظ نعیم الرحمن کی ہے حافظ نعیم کے جارحانہ انداز نے سب کے قدم اکھاڑ دیے ہیں تمام پارٹیاں سرجوڑ کے بیٹھی ہیں کہ کسی طرح الیکشن سے فرار ہو جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ حق دو کراچی مارچ دیکھنے کے بعد کوئی بھی بہانہ ہاتھ آجائے اور انتخاب ملتوی کر دیا جائے۔ لیکن حافظ نعیم نے اعلان کیا ہے کہ الیکشن جتنے دن بھی ملتوی کر دو ہماری تحریک ایک لمحے کے لیے نہیں رکے گی۔ ہم کراچی کے حق کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ کراچی نکل کھڑا ہوا ہے اپنا حق لے کر رہے گا۔ حافظ نعیم نے پرجوش انداز میں اعلان کیا کہ پورا کراچی 28 اگست کو نکلے اور ترازو کے نشان پر مہر لگائے۔ ترازو والے ہر ضلع ہر حلقے ہر کونسلر کو ووٹ دیا جائے۔ نشان صرف تراز پر لگایا جائے۔ حافظ نعیم کی طویل اور پر مشقت جدوجہد اب کراچی کی آواز بن گئی ہیں۔ کراچی جس طرح تباہ حال ہے اس کی روشنی میں تو کامیاب ہونے والے اگر مخلص ہیں تو انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہو گا۔ شہر کی ترقی تو دوسرا مرحلہ ہو گا۔ پہلا مرحلہ تو اس برباد شہر کی بحالی اس کے انفراسٹرکچر کی تعمیر نو ہے پھر اس کی ترقی کا سوچا جائے گا۔ لیکن یہ سارے کام صرف جماعت اسلامی کر سکتی ہے۔ اس نے دو مرتبہ تباہ شدہ کراچی کو سنوارا ہے اس کے میئر دو مرتبہ اور سٹی ناظم ایک مرتبہ رہے لیکن تاریخ انہیں نہیں بھول سکتی۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عبدالستار افغانی اور ان کی ٹیم کراچی کو کچھ دینے کے لیے آئے تھے اور بہت کچھ دے گئے۔ نعمت اللہ خان کراچی کو نیا نظام منظم کرکے دے گئے۔ ایک ترقی یافتہ شہر کی بنیاد رکھ گئے تھے لیکن شہر کے دشمنوں نے شہر کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا۔ اب حافظ نعیم الرحمن کسی منصب اور ذمے داری کے ملنے سے پہلے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی، اسپتالوں کی فراہمی، یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنے سے لے کر کورونا کے دور میں ویکسی نیشن، ڈاکٹروں کے لیے حفاظتی کٹس، اسپتالوں، مسجدوں، اسکولوں اور مندروں میں اسپرے، بارش میں متاثرین کی خدمت یہاں تک کہ ڈوبتے لوگوں کو پانی سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کرنے سمیت سارے کام حافظ نعیم اور ان کی ٹیم کررہی ہے جب منصب کے بغیر اتنا کام کرسکتے ہیں تو منصب کے بعد یقینا شہر کی شکل بدلے گی۔