ایک دفعہ درست کام کیوں نہیں ہوتا

518

ملک میں اکھاڑ بچھاڑ کا کھیل جاری ہے۔ یہ عجیب روایت ہے کہ ایک حکومت جاتی ہے تو اس کے منصوبوں اور کاموں کو ختم کیا جاتا ہے یا تختی ہی اکھاڑ دی جاتی ہے۔ عمران خان وزیراعظم بنے تو نواز شریف کے اقدامات کو کالعدم قرار دیا اور اب شہباز شریف وزیراعظم ہیں تو پی ٹی آئی کے کاموں کو ختم کررہے ہیں۔ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جو کام سابق حکومت نے کیے تھے وہ اصولوں اور قوانین کے خلاف تھے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں یہ تمام لوگ اس وقت کیا کرتے ہیں جب یہ قوانین بنتے ہیں منصوبے بنائے جاتے ہیں منظوری دی جاتی ہے پی ٹی آئی حکومت نے میڈیکل کمیشن بنایا تھا اس پر طبی حلقوں اور ڈاکٹروں کی تنظیموں کی جانب سے اعتراضات بھی آئے تھے لیکن کیا مسلم لیگ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی اتنے اہم امور پر اس طرح یکجا نہیں ہوسکتے جس طرح اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے حوالے کرنے، جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینے اور اس سے پہلے نیشنل سیکورٹی کونسل تشکیل دینے کے معاملے پر ہوئے تھے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن کے معاملے کو پارٹی کا معاملہ نہ بنایا جاتا تو اچھا تھا لیکن اگر اب اس کمیشن کو تحلیل کیا گیا تو کیا پہلے والی صورت حال برقرار رہے گی یا اس کی کوئی نئی شکل بنادی جائے گی۔ دراصل حکومتیں اپنے مفاد اور اپنے پسندیدہ لوگوں کو نوازنے کے لیے قانون سازی کرتی ہیں اس قانون کے تحت اپنے لوگوں کو عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے۔ اسی طرح وفاقی حکومت کی قانونی ٹیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی گئی 118 وکلاکو فارغ کرکے 127 نئی تقرریاں کردی گئی ہیں۔ کیا یہ سب تقرر پارٹی بنیاد پر کیے گئے تھے۔ یا قانون کے خلاف تھے۔ اگر ایسا ہے تو کیا 127 نئے تقرر قانون کے مطابق ہیں۔ اس طرح دو ایڈیشنل اٹارنی جنرل فارغ کردیے گئے ہیں۔ یہ حکومت سال بھر کے لیے ہے اور فیصلے پانچ سال کے حساب سے کیے جارہے ہیں۔ البتہ تاجروں پر فکس ٹیکس کو معطل کرنے اور ارکان پارلیمنٹ اور بیورو کریسی کے اثاثے سامنے لانے کے فیصلے اچھے ہیں۔ اگر دکانداروں پر فکس ٹیکس معطل کے بجائے ختم ہی کردیا جاتا تو بہتر تھا۔ اس فیصلے سے دکانداروں پر تلوار لٹکی رہے گی کہ کسی بھی وقت یہ ٹیکس بحال کردیا جائے گا۔ ارکان پارلیمنٹ اور بیوروکریسی کے اثاثوں کے ساتھ جرنیلوں کے اثاثے بھی سامنے لائے جانے چاہئیں جو بعد میں بیرون ملک جزیرے خرید کر پرتعیش زندگی گزارتے ہیں یا کسی بھی ملک میں جائدادیں خریدتے ہیں۔ اسی طرح جج بھی ہیں بیوروکریسی بھی اور سیاستدان بھی۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے حکمران اور ملک کے اہم لوگوں کا منصب پر آنے سے قبل کیا حال ہوتا ہے ان کے مال میں برکت اسی وقت ہوتی ہے جب وہ کسی منصب پر آتے ہیں۔ یہ سب لوگ قوم کو اچھائی کا درس دیتے ہیں۔ ان کے ملک سے جانے اور منصب سے ہٹنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ انہوں نے کتنا مال بنایا ہے۔ عوام کی تقدیر پھر بھی نہیں بدلتی۔ ہر حکومت بدلنے پر نئی حکومت پچھلی حکومت کے منصوبوں اور لوگوں کے ساتھ یہی کرتی ہے جو شہباز حکومت کررہی ہے۔ عمران خان کے دور میں شہباز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر سمیت تمام لیگی رہنمائوں کو اسی طرح رگڑا جارہا تھا جیسے آج شہباز گل کے ساتھ ہورہا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شہباز گل کے ساتھ صحیح ہورہا ہے بلکہ جس طرح لیگی رہنمائوں سعد رفیق اور دیگر کے ساتھ ہوا تھا اب شہباز حکومت وہی کررہی ہے۔ یہ رویہ کسی جمہوری معاشرے کے لیے نہایت خطرناک اور تباہ کن ہے۔ شہباز شریف کو جو وقت ملا ہے وہ اس قسم کے کام کرنے کے بجائے ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کریں۔ قانون کے مطابق اداروں کو چلایا جائے۔ جب قانون آزادی سے کام کرے گا تو یہ شکوہ نہیں کیا جاسکے گا کہ انتقامی کارروائی ہورہی ہے۔ ایک دوسرے کے منصوبوں اور اداروں کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں کسی پارٹی کا نقصان نہیں ہوتا بلکہ ملک کا نقصان ہوتا ہے۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی ایک دوسرے سے مقابلہ ضرور کریں لیکن ملک کی قیمت پر نہیں۔ حالت یہ ہے کہ جو منصوبے پندرہ سال قبل بنے تھے حکومت بدلنے پر ان منصوبوں کو سرد خانے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ کراچی ہی کو لے لیں اس کیلیے کے فور کا منصوبہ کب سے رکا پڑا ہے سرکلر ریلوے کا معاملہ اتنا پرانا ہوگیا ہے کہ شاید اب ریلوے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ بلدیاتی انتخابات بھی مکمل نہیں ہوئے سارا معاملہ رکا پڑا ہے۔