تباہ حال کراچی میں بلدیاتی انتخابات اہم ہیں

363

وطن ِ عزیز میں مون سون کی بارشوں کے بعد صورت ِ حال تشویش ناک ہے۔ بارانِ رحمت حکومتی نااہلی کی وجہ سے زحمت بن گئی ہے۔ مجموعی اعداد وشمار کے مطابق دو ماہ کے دوران سات سو کے قریب اموات ہوچکی ہیں اور ملک کے 103 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ صرف سندھ میں بچوں اور خواتین سمیت 21 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ سیلابی ریلوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں دیہات زیرآب آگئے ہیں اور سیکڑوں مکانات پانی میں بہہ گئے، اسی طرح مختلف علاقوں میں سڑک پر متعدد حادثات میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ اس کی حالیہ مثال وہ واقعہ ہے جس میں کراچی کے علاقے ملیر میں موٹر وے ایم 5 لنک روڈ پر سیلابی ریلے میں کراچی سے حیدرآباد جانے والی مسافر کار بہہ گئی جس کے نتیجے میں میاں بیوی اور 4 بچوں سمیت 7 افراد ہلاک ہوگئے۔ اسی طرح کراچی کے علاقے تھڈو ندی کے سیلابی ریلے میں بہنے والی خاتون جاں بحق ہوگئی جبکہ 3 بچوں کو بچا لیا گیا۔ تھڈو ندی کے سیلابی ریلے نے اسکیم33 کو ایک بار پھر بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور متعدد رہائشی سوسائٹیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سوسائٹیوں کے مکینوں کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں پانی میں ڈوب گئیں اور پانی گھروں میں داخل ہوگیا جس سے لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے، جب کہ کئی مکین نقل مقانی کرکے اپنے رشتے داروں کے گھر چلے گئے۔ اس وقت کراچی کے شہری بدترین حالات سے گزر رہے ہیں، اور کئی علاقوں میں تو وہ اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ کراچی کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے۔ گلیوں اور محلّوں کی چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر کیچڑ جمع ہے۔ محلے اور گلیوں کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ جہانگیر روڈ، گرومندر، لیاقت آباد دس نمبر سے ناظم آباد کی جانب جانے والے دونوں ٹریک خستہ حال ہیں۔ جہانگیر روڈ اور گلزار ہجری پر سڑک ٹیلوں میں تبدیل ہوچکی ہے جس پر سفر جان لیوا بن گیا ہے۔ جگہ جگہ سڑک پر گڑھے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق فیڈرل بی ایریا واٹر پمپ کی سڑک پر گڑھوں کی وجہ سے وہاں موجود عارضہ قلب کے اسپتال میں مریضوں کو لانا بھی مشکل ترین مرحلہ بن گیا ہے۔ علاقے کے دکان دار اور کاروباری حضرات پریشان ہیں، گاہکوں نے ان علاقوں کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ شہر کی سڑکیں پہلے ہی خراب تھیں، اب تو یہ بہت زیادہ خراب ہوگئی ہیں، شہر کی مرکزی شاہراہوں کا یہ حال ہے کہ ان پر گاڑیاں چلانا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ طبی ماہرین پریس کانفرنس کرکے کہہ رہے ہیں کہ خراب سڑکیں اور ناہموار راستے کمر درد اور گردن کی تکالیف کا سبب بن رہے ہیں، سڑکوں کی خستہ حالی، ٹوٹ پھوٹ اور گڑھوں کی وجہ سے کمر درد کے کیسز بڑھ گئے ہیں، سڑکوں کی وجہ سے میکینکل بیک پین تو بہت زیادہ ہے، بعض کیسز میں اتنی شدت آجاتی ہے کہ مریضوں کی روزمرہ زندگی متاثر ہوجاتی ہے۔ یہ کسی بھی ملک اور شہر کا بدترین منظرنامہ ہے، جہاں روزانہ کی بنیاد پر انسانی زندگی متاثر ہورہی ہے اور ریاست سکون کی نیند سورہی ہے، جس کا کہیں وجود نہیں ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کا آدمی پہلے ہی بری حالت میں ہے اور معاشی بوجھ کی وجہ سے اس کی کمر جھکی ہوئی ہے، ایسے میں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے نتیجے میں غریب مریضوں پر علاج اور دوائوں کی وجہ سے مزید اضافی مالی بوجھ پڑ رہا ہے اور یہ افراد طویل بیڈ ریسٹ کی وجہ سے نوکریوں اور مزدوری سے محروم ہورہے ہیں۔ اس وقت شہر کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے، ایسے میں کراچی کے لیے بلدیاتی انتخابات بہت اہم ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی ہے اور اہل ِ کراچی میں امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔ 28 اگست ووٹ کی طاقت اور عوام کے فیصلے کا دن ہے۔ اس شہر کی ضرورت اور تقاضا یہ ہے کہ اہلِ کراچی اْن جماعتوں کو مسترد کردیں، جن کی نااہلی اور ناقص کارکردگی کے باعث ہی شہر کی موجودہ ابتر حالت ہوئی ہے۔