پیپلزپارٹی کی حکومت کا جامعات دشمن اقدام

358

سندھ میں مجموعی طور پر تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے، اسی طرح سندھ کی جامعات بھی ایک عرصے سے پیپلز پارٹی کے نشانے پر ہیں۔ سرچ کمیٹی کے نام پر جو کچھ سندھ کی جامعات کے ساتھ ہورہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ کس طرح اپنے وفاداروں کو وائس چانسلر تعینات کیا جارہا ہے۔ اب سندھ حکومت نے سندھ کی جامعات میں وائس چانسلر کے تقرر کے سلسلے میں پی ایچ ڈی اور 15تحقیقی پرچوں کی شرط ختم کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔ سول سرونٹ، کالج ٹیچر، نجی یا سرکاری اداروں کے17گریڈ یا اس سے اونچے گریڈ کے افسر بھی اب وائس چانسلر کے عہدے کے لیے درخواستیں دینے کے اہل ہوں گے، اس کے ساتھ وائس چانسلر کے عہدے کے لیے عمر کی حد 65 سال سے کم کرکے 62سال کردی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماہرین ِ تعلیم کے بجائے بیوروکریٹ اور سول سرونٹ کے وائس چانسلر بننے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ قانون کے ساتھ کھلواڑ کرکے اور اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کہیں نہ کہیں من پسند افراد کو نوازنے اور پیسے کا کھیل ہے۔ سماج میں تعلیم کے ساتھ جامعات کا کردار کلیدی ہے، جامعات معاشرے کے وہ رہنما ادارے ہیں جن میں ملک کی آئندہ قیادت کی تربیت ہوتی ہے، وہ انہیں سماجی و معاشرتی شعور سے بہرہ ور کرتے ہیں، لیکن ان اداروں کو جان بوجھ کر تباہ و برباد کیا جارہا ہے اور نجی تعلیمی اداروں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے انجمنِ اساتذہ جامعہ کراچی اور فپواسا سندھ نے وائس چانسلرز کے تقرر کے لیے پی ایچ ڈی اور 15 پرچوں کی شرط ختم کرنے کے اقدام کو کسی صورت قبول نہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس اقدام سے جامعات کو تباہ کرنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ سندھ یونیورسٹیز ترمیمی بل 2018ء میں بھی من مانی ترامیم کرکے جامعات کی سنڈیکیٹ اور سلیکشن بورڈز کو سندھ حکومت کی اوطاق بنادیا گیا ہے کہ جہاں منتخب افراد سے زیادہ وزیراعلیٰ کے نامزد افراد جامعات کے بنیادی فیصلے کررہے ہیں۔ جامعات کے وائس چانسلرز کے لیے پی ایچ ڈی اور پندرہ پرچوں کی بنیادی شرط جو کہ کسی بھی پروفیسر کی اہلیت کی کم ازکم شرط ہے، کو ختم کیا جائے گا تو جامعات کی تباہی یقینی ہے۔
سندھ اور کراچی کے علم اور تعلیم دوست سماج کے ہر طبقے کو سندھ حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کرنی چاہیے، اساتذہ کے اصولی موقف کا ساتھ دینا چاہیے اور ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، کیونکہ یہ نسلِ نو کے مستقبل کا معاملہ ہے، پورے سماج کا مسئلہ ہے، اس فیصلے کا ہر صورت واپس ہونا جامعات کے مستقبل کے لیے ضروری ہے۔