آئی ایم ایف کی شرائط …مرے کو مارے شاہ مدار

582

درجن بھر سے زائد سیاسی جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کی پالیسیاں کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی، کی شاندار مثال پیش کرتی ہیں ایک جانب وزیر اعظم جناب شہباز شریف اس عزم کا بار باراعادہ کرتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم بین الاقوامی گدائی کا کشکول توڑ کر خود انحصاری کی پالیسی اختیار کریں گے اور قوم کو اپنے پائوں پر کھڑا کریں گے مگر دوسری جانب وہ اور ان کے کابینہ کے ساتھی دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروں میں سے ایک ایک کے سامنے جھولی پھیلائے بھیک مانگتے دیکھے جا سکتے ہیں اور ایک معمولی رقم، جو ہم محض کفایت شعاری کے ذریعے بآ سانی بچا سکتے ہیں، کے حصول کی خاطر اپنے قومی وقار اور ملکی عزت کو دائو پر لگا کر عالمی ساہوکار، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی منت سماجت کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں، وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ہر طرح کی شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر نہایت ڈھٹائی سے یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کے سامنے ہر طرح سے سر تسلیم خم کر دیا ہے اور اس کی تمام شرائط پوری کرنے کی ضمانت دے دی ہے مگر اس کے باوجود آئی ایم ایف کے ارباب اختیار پاکستان کو سود پر فراہم کئے جانے والے قرض کی منظوری میں مسلسل لیت و لعل کر رہے ہیں اور اب آئی ایم ایف کے 29 اگست کو ہونے والے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس سے توقعات وابستہ ہیں کہ اس میں پاکستان کے لیے قرض کی فراہمی کی منظوری دے دی جائے گی۔
حکومت کی پالیسیاں کچھ اس قدر ناقابل فہم ہیں کہ منطق تلاش کرنا آسان نہیں۔ حکومت ایک طرف صبح شام قومی خزانہ خالی ہونے کا رونا روتی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کی قلت کا یہ عالم ہے کہ پہلے سے حاصل کئے ہوئے قرضوں کے سود کی ادائیگی کی خاطر بھی دوست ممالک اور عالمی اداروں سے قرض لینا ہماری مجبوری بن چکا ہے، زرمبادلہ کی اس قلت کے پیش نظر حکومت نے اسی سال 19 مئی کو بیرون ملک سے اشیائے تعیش اور غیر ضروری اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی مگر کم و بیش دو ہفتے قبل حکومت نے ان میں 545 اشیاء کی درآمد پر پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا حالانکہ ان میں سے اکثر اشیاء ایسی تھیں کہ جو پاکستان میں نہ صرف بنتی ہیں بلکہ بہ افراط دستیاب ہیں اس لیے ان کی درآمد کی اجازت دینے کا کوئی معقول جواز موجود نہیں تھا۔ اب جب کہ آئی ایم ایف نے ابھی قرض دینے کی حتمی منظوری بھی نہیں تو وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے جمعرات کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اشیائے تعیش کی درآمد پر پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ کی گفت گو بے بسی اور لاچارگی کی منہ بولتی تصویر ہے، ان کا دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلائیں گے جو یقینا بہت اچھی اور قابل تحسین بات ہے مگر اسی سانس میں اسی نشست میں وہ یہ کہنے پر بھی مجبور ہیں کہ ہم نے جن اشیائے تعیش کی درآمد پر پابندی لگائی تھی، آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ان اشیاء کو درآمد کرنے کی اجازت دی جائے اور حکم یہ بھی ہے کہ یہ پابندی 29 اگست کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس سے پہلے ختم کی جائے۔ جناب مفتاح اسماعیل نے پریس کانفرنس میں اپنی دلچسپ اور تضادات سے بھر پور گفت گو میں مزید کہا کہ ہماری ترجیح تیئس کروڑ عوام کو روٹی دینا ہے، ڈالر سے کھانے پینے کی چیزیں منگوا لیں یا پر تعیش گاڑیاں اور قیمتی آئی فون درآمد کر لیں۔ میرے پاس وسائل بہت محدود ہیں، مجھے ان کے اندر رہ کر خرچ کرنا ہے اس لیے مہنگی گاڑیاں، موبائل فون، برقی آلات، درآمدی مچھلی اور گوشت اور دیگر اشیائے تعیش پر اپنے وسائل خرچ نہیں کر سکتے ہمیں ان اشیاء کی بجائے آٹا، گندم، کپاس اور خوردنی تیل خریدنے کو ترجیح دینا ہے، وزیر اعظم شہباز شریف بھی نہیں چاہتے کہ ہم ان اشیائے تعیش کو پاکستان آنے دیں مگر آئی ایم ایف کا شدید دبائو ہے کہ ان اشیاء کی پاکستان میں درآمد پر پابندی ختم کی جائے چنانچہ ان کی شرائط پوری کرنے کے لیے ہم ان اشیاء کی درآمد کی اجازت دے رہے ہیں، بجلی کی قیمت میں اضافہ کے حوالے سے بھی ہم آئی ایم ایف سے معاہدہ کی پاسداری کر رہے ہیں اور کوئی نان فنڈڈ سبسڈی بجلی پر نہیں دیں گے جناب مفتاح اسماعیل نے پرچون فروش دکان داروں کے بجلی کے بلوں پر لگائے گئے فکس ٹیکس کے ضمن میں غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا تخمینہ تھا کہ اس طرح ہم 42 ارب روپے ٹیکس حاصل کر سکیں گے مگر یہ ٹیکس لگانے میں ہم سے غلطی ہو گئی تھی کیونکہ جن دکانوں کا ہزار سے دو ہزار روپے بل آتا تھا ہم نے ان پر بھی ٹیکس لگا دیا تھا، جو ہمیں واپس لینا پڑا، اب ہم 42 ارب رو پے جمع نہیں کر سکیں گے اور ہمارا نظر ثانی شدہ ہدف 27 ارب روپے ہے اس ہدف کے حصول کا طریقہ کار بتاتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم ایک آرڈیننس لائیں گے جس کے ذریعے پرچون پر فکس ٹیکس ہٹا دیا جائے گا اور اگلے تین ماہ کے لیے پانچ فیصد سیلز ٹیکس اور ساڑھے سات فیصد انکم ٹیکس ہر دکاندار پر عائد ہو گا بعد ازاں یہ صرف ایک سے پچاس یونٹ بجلی والوں پر لاگو ہو گا اور اس سے زائد یونٹ والوں کے لیے بتدریج بڑھتا رہے گا اگر کوئی ایک ہزار یونٹ بجلی خرچ کرے گا تو اس کا سیلز ٹیکس ساڑھے بارہ فیصد ہو جائے گا اور ریٹ بیس فیصد تک جائے گا ۔ یکم اکتوبر سے اس نئے فارمولا پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی اس طویل گفت گو کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ ہمارے حکمران عالمی ساہو کار اداروں کے سامنے قطعی بے بس ہیں اور دلائل کے ذریعے انہیں قائل کرنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہیں کہ جن چیزوں کی ہمیں ضرورت ہے نہ ان کو درآمد کرنے کی سکت کمزور مالی حیثیت کے سبب ہم رکھتے ہیں تو ہم بلا ضرورت ان کو درآمد کر کے اپنی سسکتی ہوئی معیشت کو مزید کمزور کیوں کریں؟ ہمارے حکمران مجبور ہیں کہ جن شرائط کو وہ خود بھی سو فیصد ملکی مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں، انہیں صرف اور صرف آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لیے قبول کرتے چلے جائیں اور ’مرے کو مارے شاہ مدار‘ کے مصداق پہلے سے مہنگائی اور بے روز گاری کے ستائے خود کشی کرنے پر مجبور لوگوں پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لاد کر ان کی زندگی مزید اجیرن کردیں۔