چین، امریکا، افغانستان

664

چین نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں قائم امارات اسلامیہ یعنی طالبان حکومت سے مذاکرات کرے اور افغانستان کے منجمد فنڈز کو بحال کرے۔ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا اور طالبان کی حکومت کے قیام کے ایک سال مکمل ہونے پر اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب ژانگ جون نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری، افغانستان کی نئی انتظامیہ کو اعتماد اور رہنمائی فراہم کرنے کے لیے تعلقات بحال کرے۔ انہوں نے اسی کے ساتھ امریکا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ منجمد افغان فنڈز کو فی الفور افغانستان کے مرکزی بینک کے حوالے کردینا چاہیے۔ کسی بھی ملک کے پاس افغانستان کے اثاثے منجمد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ چینی مندوب نے اس موقع پر افغانستان کی سابق قیادت کو بھی مشورہ دیا ہے کہ انہیں بھی اپنے تجربات سے ملک کو فائدہ پہنچانا چاہیے، حکومت ختم ہونے سے ان کی ذمے داریاں ختم نہیں ہوجاتیں۔ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا معاصر عالمی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ ہے۔ چوں کہ عالمی تحقیقی اداروں اور ذرائع ابلاغ پر ابھی تک مغرب کا تسلط ہے اس لیے اس اہم واقعے کے اسباب، نتائج اور مضمرات پر کوئی ٹھوس گفتگو نہیں ہوسکی ہے۔ اس واقعے نے مغرب کو اس اعتبار سے بھی بے نقاب کردیا ہے کہ وہ حالات واقعات پر معروضی نگاہ نہیں ڈال سکتے۔ افغانستان کے حالات کا معروضی تجزیہ ایک طرف، عالمی سیاست میں جتنا جھوٹ بولا گیا ہے اس کو دنیا کے سامنے بیان کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ابھی صرف افغانستان کے موجودہ منظرنامے پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ افغانستان پر 20 سالہ قبضے کی جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین اور سب سے مہنگی جنگ ہے، کھربوں ڈالر اس جنگ میں جھونک دینے کے بعد امریکا کے نصیب میں ذلت آمیز ہزیمت ہی آئی۔ امریکا مجبور ہوا کہ اس نے جس حکومت کو عالمی دہشت گردی کا ذمے دار قرار دے کر ناٹو افواج کے ساتھ حملہ کیا تھا اور ان سے کسی بات چیت کے لیے تیار نہیں تھا بالآخر انہی سے مذاکرات کی بھیک مانگنی پڑی۔ انہی طالبان کو اپنا اصل حریف تسلیم کرکے مذاکرات کیے، انہی طالبان سے محفوظ فوجی انخلا کی ضمانت حاصل کی اور امریکی فوج انخلا کے نتیجے میں امارات اسلامیہ یعنی افغان طالبان نے پرامن طور پر افغانستان کا کنٹرول حاصل کرلیا۔ دوحا مذاکرات کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ امارات اسلامیہ افغانستان کو افغانستان کی جائز حکومت تسلیم کرے، امریکا کی بدنیتی اسی بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ امارات اسلامیہ کو افغانستان کی حکومت تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے فنڈز بھی منجمد کردیے ہیں۔ امریکا کی وجہ سے چین اور پاکستان سمیت کسی بھی ملک نے افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے، اس کے باوجود دنیا کے تمام ممالک بالآخر عملی رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔ امریکیوں کا خیال یہ تھا کہ فوجی انخلا کے بعد افغانستان میں کابل پر قبضے کی جنگ شروع ہوجائے گی، ذہنی طور پر پوری دنیا افغانستان کی خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میں مہاجرین کی نئی لہر آنے کی تیاری کررہی تھی، لیکن امریکا کی تیارکردہ افغان فوج امریکی فوجی انخلا کے ساتھ ہی تحلیل ہوگئی اور افغان طالبان نے حکمت و تدبر سے پرامن طور پر کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کے باوجود افغانستان کے امن کو غارت کرنے کے لیے امریکی سازشیں جاری ہیں، اسی سازش کا حصہ یہ ہے کہ 2 اگست کو امریکا نے کابل کے ایک مکان پر ڈرون میزائل فائر کرکے ایمن الظواہری کی شہادت کا اعلان کیا۔ اس مکان میں کون تھا اس کی کوئی شہادت کہیں سے بھی نہیں آئی۔ یہ واقعہ بھی نائن الیون اور ایبٹ آباد حملے کی طرح پراسرار تھا۔ امریکا سے ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی کو دوحا معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، جب کہ ڈرون حملے کو افغان حکومت دوحا معاہدے کی خلاف ورزی قرار دے چکی ہے۔ اس واقعے کے بعد دنیا کو بتانا چاہیے تھا کہ امریکا نے کابل پر کہاں سے ڈرون فائر کیے، لیکن اس کے حقائق بیان نہیں کیے گئے۔ دنیا کے امن کو غارت کرنے کے لیے عالمی طاقتیں جھوٹ کا جو بازار گرم کرتی ہیں، یہ واقعہ بھی اس کی ایک شہادت ہے۔ ابھی تک افغان طالبان افغانستان میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہیں اس لیے بھی کہ امن کی سب سے زیادہ ضرورت افغانستان کو ہے لیکن امریکا کو سی آئی اے کے لیے اس کے پڑوسی ممالک میں اڈے نہیں مل سکے ہیں۔ امریکا نے افغانستان کی 20سالہ طویل جنگ سے سبق نہیں سیکھا ہے حالاں کہ یہ اس کے اپنے مفاد میں ہے اور عالمی امن کی ضرورت بھی یہ ہے کہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی ذمے داری زیادہ ہے کہ وہ امریکا سمیت تمام عالمی طاقتوں سے کہے کہ وہ افغانستان کی حکومت کو تسلیم کریں۔ چین ایک اہم طاقت ہے چین اور پاکستان اقتصادی تزویراتی شراکت دار بھی ہیں چین نے اقوام متحدہ میں آواز اٹھا دی ہے۔ اس کو آگے بڑھانا خطے اور پاکستان میں امن کے قیام کی لازمی ضرورت ہے۔