کراچی اپنا حق لے کر رہے گا

1253

20جولائی کی رات الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی میں بلدیاتی الیکشن نہ کروانے کے اچانک فیصلے سے عوام میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔ کراچی تجارتی و صنعتی حب ہے ہر پارٹی اسے سونے کی چڑیا سمجھتی ہے۔ جمہوری ادوار میں ہمیشہ کراچی کے ساتھ سوتیلا سلوک روا رہتا ہے وفاق اور سندھ میں الگ الگ پارٹی کی حکومت اور لسانی پارٹی کے مفادات نے کراچی کے ساتھ ہمیشہ ظلم کا بازار گرم رکھا۔ کراچی پاکستان کا وہ سوتیلا بچہ ہے جسے کوئی اون نہیں کرتا۔ ایسا یتیم اور لاوارث جسے ہر کوئی اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد بھول جاتا ہے۔ اب تک اقتدار میں آنے والی ہر جمہوری حکومت نے کراچی کی ترقی کے لیے کوئی کام نہیں کیا ۔نعمت اللہ خان اور عبدالستار افغانی کے دور میں کراچی نے ترقی کی مگر پچھلے سترہ سال سے کراچی تباہی کی طرف گامزن ہے۔
آج کراچی میں بچے بچے کی زبان پر حافظ نعیم الرحمن، جماعت اسلامی اور ووٹ دو ترازو کے الفاظ ہیں الیکشن سے قبل شہر کی فضا ترازو کے حق میں تھی۔ کراچی کے عوام یہ بات جان چکے تھے کہ ترازو کو ووٹ دینے سے ان کی تقدیر بدل جائے گی مگر جابر حکمرانوں اور ان کے چیلوں نے وہی پرانے ہتھکنڈے آزمائے اور الیکشن کو ایک ماہ کے لیے موخر کردیا۔
کراچی میں ہر سال بارشیں آتی رہیں گٹر اور نالے ابلتے رہے شہری اپنی جان سے ہاتھ دھوتے رہے مگر سندھ حکومت کو کبھی خیال نہیں آیا۔ اب جب کہ کراچی کی قسمت بدلنے والی تھی کراچی اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا تھا
کراچی کا ہر پڑھا لکھا شخص جو چاہے کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہوں یہ بات جان چکا تھا کہ شہر کی تقدیر اگر کوئی بدل سکتا ہے تو وہ حافظ نعیم الرحمن اور جماعت اسلامی کی دیانت دار قیادت ہے مگر افسوس اس بار بھی کراچی کے عوام سے ووٹ دینے کا حق چھین لیا گیا مگر یہ ظلم کا راج زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتا کراچی کے عوام جاگ چکے ہیں اپنا حق لینے کا طریقہ جان چکے ہیں بلدیاتی الیکشن میں ترازو کو کامیاب کروا کر حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں اپنا حق لے کر رہیں گے۔ان شاء اللہ۔
صائمہ عبدالواحد۔ کراچی