نقطہ نظر

868

اسٹیٹ بینک پر حکومتی قوانین
نافذ کرائے جائیں
وفاقی حکومت نے ملازمین کی کم سے کم تنخواہ 25ہزار مقرر کی ہے لیکن اہم ادارے بھی اس کی پاسداری نہیں کرتے۔ گزشتہ تقریباً 25 سال سے اسٹیٹ بینک نے ادارے میں نچلی سطح کے عملے کی مستقل ملازمین کے طور پر بھرتی بند کر رکھی ہے۔ کچھ عرصے تک ڈیلی ویجرز سے کام چلایا جاتا رہا۔ انہیں میڈیکل سہولت کسی حد تک دی جاتی تھی۔ ان کی تنخواہ اگرچہ مستقل ملازمین کی نسبت بہت ہی کم تھی لیکن پھر بھی ان کی مالی ضروریات کسی حد تک پوری ہو جایا کرتی تھیں۔ شاید اسٹیٹ بینک کے چودھریوں، وڈیروں سے اِن کمی کمینوں کا اتنا فائدہ بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ کچھ دہاڑی داروں کو فارغ کیا گیا تو وہ عدالت چلے گئے۔ یہ بات بڑوں کو ناگوار گزری۔ اس کے بعد ٹھیکیداری نظام یا تھرڈ پارٹی سسٹم لایا گیا۔ چنانچہ اسٹیٹ بینک سپلائر کو ماہانہ رقم کی ادائیگی کرتا ہے (یہ سپلائر عموماً اپنے بھانجے بھتیجے ہی ہوتے ہیں)، سپلائر اس رقم میں سے بیس سے تیس فی صد کٹوتی کر کے بقیہ رقم تھرڈ پارٹی کے ان ملازمین کو دے دیتا ہے۔
تھرڈ پارٹی کے ان لوگوں کی تعیناتی سے لے کر اب تک بینک ان کو منظور کردہ کم از کم اجرت سے بھی کم اجرت دے رہا ہے۔ ایک ڈرائیور بے چارے نے دبی دبی زبان میں شکایت کرنی چاہی کہ اسٹیٹ بینک اور صرف 18ہزار روپے تنخواہ؟؟ جواب ملا، ہمارے پاس تو 10ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر بھی ڈرائیور کام کرنے کو تیار ہیں۔ ظاہر ہے، بے روزگاری کے اس دور میں اگر کسی بے روزگار کو 10 ہزار ماہانہ کی نوکری ملے گی تو وہ یہ سوچ کر اسے بھی اپنا لے گا کہ چٹنی روٹی سے گزارہ ہو جائے گا، فاقوں سے تو بچ جائیں گے۔ لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا یہ بے روزگار کا استحصال نہیں ہے؟
مہنگائی کے اس ’’عمرانی‘‘ اور ’’شریفی‘‘ دور میں 18 ہزار روپے میں ایک اوسط گھر کا بجٹ بنانے کے لیے اگر بینک کے ان 25، 28 اور 32لاکھ روپے ماہانہ بلکہ اس سے بھی زیادہ تنخواہ لینے والے ’’بزرجمہروں‘‘ (بشمول آئی ایم ایف کے نمائندے) کو کہا جائے تو یہاں بھی فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُو (البقرہ: 24) والا معاملہ ہوگا۔
بینک کے یہ بڑے (اور دل کے چھوٹے) ایک دوسرے کی مدد کس طرح کرتے ہیں، اس کا اندازہ لگائیے۔ بینک کا قانون ہے کہ ریٹائرمنٹ سے چھے ماہ پہلے ملازم کو ایل پی آر پر بھیج دیا جاتا ہے، جس میں اسے ماہانہ تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ اگر بینک کسی کو ایل پی آر پر جانے سے روک دے تو اس فرد کو اپنی تنخواہ کے مساوی مزید رقم چھے ماہ تک بطور ماہانہ تنخواہ ملتی رہتی ہے، یعنی دگنی تنخواہ۔ قوانین میں اس بات کی تصریح نہیں ہے کہ کس درجے کے افسر کو روکا جائے۔ جو بھی اچھا ورکر ہو اسے روکا جا سکتا ہے تاکہ ادارے کے کام کا کوئی حرج نہ ہو۔ لیکن عملی صورتِ حال یہ ہے کہ اس قانون یا سہولت کو اندھے کی ریوڑیاں بنا لیا گیا ہے۔ ایک گروپ ہیڈ جو 25 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لیتے تھے، دسمبر 21ء میں ریٹائر ہورہے تھے۔ ان کو یہ کہہ کر روک لیا گیا کہ یہ سی بی اے سے مذاکرات کیا کرتے ہیں۔ ابھی تک تو ان صاحب نے سی بی اے سے کوئی مذاکرات نہیں کیے۔ ہو سکتا ہے کہ فیس سیونگ کے لیے انتظامیہ سی بی اے سے ان کے چند منٹ کے مذاکرات کروا دے۔ ان کو جو الگ سے ڈیڑھ کروڑ روپے دیے جا رہے ہیں کیا یہ غریبوں کا حق نہیں؟ سیدنا علیؓ کا قول ہے، ’’اگر کسی کو بھوکا دیکھو تو یہ نہ سمجھو کہ خدا نے اس کا رزق نازل نہیں کیا۔ نہیں! بلکہ اس کا حق کسی نہ کسی نے مار رکھا ہے۔ کہیں وہ میں تو نہیں؟‘‘۔
بینک کی ویب سائٹ اور قوانین میں ڈیلی ویجرز کی میڈیکل کی سہولت کا ذکر ہے لیکن عملاً اسے منظورِ نظر ڈیلی ویجرز تک ہی محدود کردیا گیا ہے۔ اس وقت ایس بی پی میں سیکٹروں تھرڈ پارٹی ورکرز کام کررہے ہیں۔ ان کو سوشل سیکورٹی والی میڈیکل سہولت دی جا سکتی ہے لیکن پھر وہی بات کہ آج کس کے پاس اتنا فارغ وقت ہے کہ چھوٹے لوگوں کے ایسے چھوٹے چھوٹے، غیر اہم مسئلوں میں سر کھپاتا پھرے۔
اسٹیٹ بینک کے ان بڑوں کی ذہانت کا اندازہ نئے وزیر اعظم کے ورکنگ ٹائم والے اعلان پر عمل درآمد سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ اعلان بالکل واضح طور پر وفاقی حکومت کے ماتحت اداروں کے لیے تھا، لیکن ان ’’بڑے لوگوں‘‘ نے اس اعلان کو سیٹھ کے نوکروں یعنی پرائیویٹ بینکوں کے عملے پر بھی نافذ کر دیا (اس عملے میں اکثریت contractual کی ہے)۔ جس سانس میں وزیر اعظم نے دن اور اوقاتِ کار بڑھانے کی بات کی تھی، اسی سانس میں انہوں نے کم از کم ماہانہ اجرت 25ہزار روپے کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ کیا اپنے ہاں کام کرنے والوں پر بھی بینک اس اجرت کے نفاذ میں ویسی ہی پھرتی دکھائے گا؟ یا اب یہ کہے گا کہ ہم وفاقی حکومت کے ماتحت نہیں ہیں، یا یہ کہے گا کہ ہم حکومت کے ماتحت تو نہیں لیکن پیپرا رولز (کم از کم بولی دینے والے کو ٹھیکہ دینا) پر عمل کرتے ہیں۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بینک کو جدید طریقوں کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ Living wages بھی تو ایک جدید نظام ہے، وہ کیوں نہیں استعمال کیا جاتا؟ شدید مہنگائی کے اس دور میں کسی کو 17ہزار روپے دے کر آپ اسے چوری اور بے ایمانی کا راستہ دکھا رہے ہیں جو آپ یا آپ کے ادارے کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
ڈیلی ویجرز ورکرز اسٹیٹ بینک