پاکستان کو درپیش آئینی اور معاشی مسائل کا حل فوری انتخابات ہیں

774

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) پاکستان کو درپیش آئینی اور معاشی مسائل کا حل فوری انتخابات ہیں‘ سیاسی و آئینی نظام مضبوط بنیاد پر قائم ہونے تک ملکی معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی‘ تمام سیاسی جماعتیں طویل المیعاد حکمت عملی کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں‘ مخلوط حکومت سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے کوئی بھی بڑا معاشی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی جامعہ اردوکے شعبہ سیاسیات کی پروفیسر سیما ناز صدیقی، جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی اور جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ سیاسیات کی لیکچرار رخشندہ منیر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا پاکستان کو درپیش آئینی اور معاشی مسائل کا حل الیکشن ہے؟‘‘۔پروفیسر سیما ناز صدیقی کا کہنا تھا کہ لوگوں کے ذہنوں میں الیکشن سے متعلق سوال نہیں بلکہ پاکستان کو درپیش آئینی اور معاشی مسائل سے متعلق سوالات جنم لے رہے ہیں کیونکہ ملکی صورتحال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے‘ ہر سیاسی پارٹی اپنی مخالف پارٹی کو اس بحران کا ذمہ دار قرار دیتی ہے جبکہ کسی فرد یا پارٹی کو اس بحران کا ذمے دار قرار نہیں دیا جا سکتا‘ اس بحران کو بڑھاوا دینے میں ہر ایک نے اپنا حصہ ڈالا ہے‘ اپنی پارٹی کو ملک کی بڑی جماعت قراردینے والے سیاستدانوں نے اس ملک کو زیادہ نقصان پہنچایا اور ان کی اپنی پارٹیوں میں جمہوریت ناپید ہے‘ آج ہماری سیاست میں نفرت، عدم برداشت، اقربا پروری، کرپشن، جھوٹ، بدتمیزی اور کمیشن عروج پر ہے‘ مروت، شائستگی اور وقار ڈھونڈنے سے نہیں ملتا‘ عدالتیں مصالحت سے کام لے رہی ہیں‘ بیورو کریسی صرف اپنا فائدہ چاہتی ہے‘ لے دے کہ ایک فوج باقی بچتی ہے اسے بھی اب تماشا بنانے کے لیے بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے جبکہ یہ وہ واحد ادارہ ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان کی ساکھ کسی حد تک قائم ہے اور جو ہر بحران کو حل کرنے کا اداراک رکھتی ہے۔ موجودہ حکمراں جماعتجو گزشتہ پی ٹی آئی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا کر برسراقتدار آئی ہے اور آنے سے قبل یہ پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی حکومت کو کمزور معیشت، بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح اور دن بدن بڑھتی مہنگائی کے حوالے سے ہدف تنقید بنایا کرتی تھیں‘ برسراقتدار آنے کے بعد مسائل کے حوالے سے اتحادی حکومت کے پاس بھی کوئی واضح لائحہ عمل نظر نہیں آتا ‘ موجودہ برسراقتدار پارٹیاں پی ٹی آئی حکومت سے فوراً انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا کرتی تھیں اب اقتدار میں آنے کے بعد مخمصے کا شکار ہیں‘ اگر اقتدار میں رہتی ہیں تو معیشت کے حوالے سے انہیں سخت ترین فیصلے لینا پڑیں گے ‘جس کی وجہ سے ان کی عوامی مقبولیت میں کمی آئے گی اور اگلے انتخابات میں یہ ہار سکتی ہیں ‘پی ٹی آئی حکومت کو جس طریقے سے ہٹایا گیا اس سے عام آدمی کی ہمدردیاں عمران خان کے ساتھ بڑھ گئیں‘ اگر انتخابات فوری طور پر ہوں گے تو اس کا فائدہ عمران خان اور ان کی پارٹی کو ہوگا‘ ایم کیوایم، جے یو آئی(ف) فوری انتخابات کے حق میں نظر آتی ہے جبکہ پی ٹی آئی شہباز حکومت کی مدت پوری کرنے کے حق میں ہے تاکہ وہ مسلم لیگ نواز کو اچھی طرح گندہ کراسکے۔ ڈاکٹر محمد علی کا کہنا تھا کہ سیاسی استحکام، مضبوط اور پائیدار معیشت کی بنیاد ہے‘ کسی بھی ملک کی معیشت میں اس وقت تک استحکام نہیں آسکتا جب تک ملک میں سیاسی و آئینی نظام مضبوط بنیاد پر قائم نہ ہو‘ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی معیشت کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس نظریے سے اگر ہم پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات دیکھیں تو معاشی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ بتدریج بڑھتا ہوا سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال ہے‘ بڑھتی ہوئی مہنگائی، ڈالر کی مصنوعی اونچی اڑان، افواہوں کا بازار، سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی جبکہ دیکھو اور انتظار کروکی پالیسی کی وجہ سے ملک میں معاشی صورت حال خطرناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے‘ آئی ایم ایف چند بلین ڈالر کی خاطر پاکستان پر شرمناک حد تک شرائط مسلط کرنا چاہتا ہے‘ کوئی بھی عالمی ادارہ فی الوقت پاکستان کے ساتھ عارضی معاشی معاہدہ نہیں کرنا چاہتا‘ وہ مستقل بنیادوں پر ایسی جمہوری حکومت کے ساتھ طویل معاہدہ کرنا چاہتا ہے جس کے پاس عوامی مینڈیٹ کے ساتھ ساتھ اس کو آئینی اداروں کی بھی مضبوط حمایت حاصل ہو‘ موجودہ حکومت کی سیاسی مجبوری کی وجہ سے قبل از وقت الیکشن ہی واحد حل رہ گیا‘ جلد از جلد صاف اور شفاف نئے انتخابات کروا کر ملک کو اس غیر یقینی صورتحال سے نکالا جائے‘ اگرچہ قبل از وقت انتخابات ملک کے لیے زیادہ بہتر حل نہیں ہے تاہم قبل ازوقت حکومت گرانا بھی مناسب اقدام نہیں تھا‘ اس سے ملک میں سیاسی، معاشی اور آئینی بحران بڑھ گیا ہے، جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے‘ موجودہ صورت حال اِس بات کی متقاضی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مفادات اور انا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی معیشت پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے طویل المیعاد حکمت عملی طے کرکے ہمیں اس گھمبیر مسائل سے نجات دلائے‘ خواہ وہ حکمت عملی مشکل معاشی فیصلے ہوں یا قبل از انتخابات۔ جو بھی کرنا ہے جلد از جلد کریں تا کہ ملک میں جاری یہ سیاسی افراتفری ختم ہو۔ رخشندہ منیر کا کہنا تھا کہ جہاں تک بات آئینی بحران کی تو اس کا حل فوری الیکشن نہیں ہے‘ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مستقبل میں دوبارہ سے پاکستان میں آئین شکنی نہیں ہوسکتی‘ آئینی بحران سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر فرد کو آئین کی اہمیت کا اندازہ ہو‘ خاص طور پر ہمارے حکمرانوں کو، ہم جب آئین کی اہمیت کو صحیح سے جان لیں گے تو اس کی عزت و احترام بھی کریں گے۔ آپ کے سوال کا دوسرا حصہ پاکستان کے معاشی بحران سے متعلق ہے‘ معاشی مسائل کا حل ہمیں فوری الیکشن سے نہیں مل سکتا‘ پاکستان کے معاشی مسائل کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ جن کے حل کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے وسائل کا بھرپور طریقے سے استعمال کریں اور طبقاتی نظام کو ختم کریں‘ سب شہریوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق فراہم کریں اس طرح ہم بہت سارے مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔