بھارت سے تجارت شروع ہوئی تو کسان برباد ہو جائیگا ، علی احمد گورایہ

391

فیصل آباد(نمائندہ جسارت)کسان بورڈ کے ضلعی صدر علی احمدگورایہ نے کہا ہے کہ بھارت سے 2 بارتجارت شروع کرنے کی حکومتی افوائوںنے پاکستانی کسانوںکو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے، حکومت اس حوالے سے واضح اعلان کرے۔ انہوں نے کہاکہ اگربھارت سے تجارت شروع ہوئی تو پاکستان کا مسائل سے گھرا کسان برباد ہو جائے گا۔تجارت کو دوطرفہ تو کہاجائے گا لیکن عملی طور پر زرعی تجارت صرف بھارت کی طرف سے ہو گی اور ہماری تباہ حال زراعت بالکل ہی تباہ نہ ہو جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ بھارت اپنے زرعی شعبے کو بھاری مراعات اور زرتلافی دیتا ہے جس کی وجہ سے بھارتی سستی مصنوعات کا پاکستان مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ انہوں نے کہاکہ بھارت اپنے زرعی شعبے کو 50ارب ڈالر زرتلافی دیتا ہے جو قومی ملکی پیداوار کا 15.3فیصد ہے جبکہ پاکستان میں مجموعی زرعی شعبے کی جی ڈی پی 50ارب ڈالر اور سبسڈی اس جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ فرض کریں بھارت سے جو ٹماٹر واہگہ کے راستے آتا ہے اس کا واہگہ تک کرایہ ایک ٹرک کا ایک لاکھ روپے ہے۔ جب وہ رسید دکھاتے ہیں تو انہیں آدھا واپس مل جاتا ہے اور وہ ٹماٹر پاکستان کے ٹماٹر کی نسبت یہاں آدھی قیمت پر ملے گا تو کیا کسان آئندہ سیزن میں ٹماٹر اگانا بند نہیں کردیں گے۔ کیا اس سے زراعت کو فروغ ملے گا یا اسے الٹا نقصان پہنچے گا،بھارت میں یوریا کا ایک تھیلہ 650روپے کا ہے جو پاکستانی تقریباً 1100 روپے بنتے ہیں جبکہ پاکستان میں اسی تھیلے کی قیمت 1800 سے 3600روپے ہے۔ کیا حکومت کنٹرول ریٹ پر کسانوں کو یوریا فراہم کرنے کی ضمانت دیتی ہے؟بھارت میں کسانوں کے لیے بجلی تقریباً مفت ہے، لگاتار اس کی سپلائی ہے جبکہ پاکستان میں بجلی نہیں اور اگر کچھ وقت کے لیے آتی ہے تو اس کی قیمت ناقابل برداشت ہے، ٹیوب ویل اور ٹریکٹر چلانے کے لیے بھارت اپنے کسانوں کو ڈیزل پر زرتلافی دیتا ہے لیکن پاکستان میں ایسی کوئی سہولت نہیں جبکہ زرعی مشینری کے لیے بھی پاکستان میں اس طرح فنڈ مختص نہیں جیسا کہ بھارت میں ہیں،بھارت کی مختلف ریاستوں کے قوانین علیحدہ علیحدہ ہیں جو پاکستان کی مصنوعات کو وہاں پہنچنے نہیں دیتے، پھر بھارت کی جانب سے نان ٹیرف بندشوں کے مسلسل اطلاق سے پاکستانی برآمدات بھارتی مارکیٹوں میں جگہ نہیں بنا سکی ہیں،دونوں ملکوں میں پانی کی تقسیم بھی منصفانہ نہیں۔ پاکستان کے دریائوں پر بھارت کی جانب سے کئی ڈیم بنائے جانے سے ہمارے کسانوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا رہتا ہے اس وجہ سے پاکستان کی زرعی پیداوار بھی مسلسل کمی کا شکار ہے ۔ چاول، گنا اورگندم کی پیدوار پاکستان میں پانی کی کمی کے باعث انتہائی کم رہ گئی ہے ۔ اگر یہ صورتحال رہی تو 2025ء میں پاکستان کو قحط کا سامنا ہو گا۔انہوں نے کہاکہ واہگہ بارڈر کو اس وقت تک نہیں کھولنا چاہیے جب تک علیحدہ سے دوطرفہ زرعی تجارت کا معاہدہ نہیں ہوتا۔ بھارت کی ریاستوں کے مختلف قوانین کی بندشوں کو دور کرنے کیلئے بھارت سے کہا جائے کہ وہ ایک جیسی قانون سازی کرے۔ معیشت اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک زراعت کو ترجیحات میں شامل نہیں کیا جاتا۔ گندم کے بیج کی بلیک کو ختم کرنے اورجعلی اور دو نمبر بیج کے خلاف قانون سازی کرنے کیساتھ ساتھ کھاد سستی فراہم کرنے کو یقینی بنایا جائے۔ چھوٹے کاشتکاروں کے ان گنت مسائل ہیں اگر وہ حل نہ کئے گئے تو وہ زندہ درگور ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کو نہ صرف برابری کی بنیاد پر تجارت کرنی چاہیے بلکہ بھارت کی طرح امپورٹ ٹیرف کا اطلاق کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ امریکا جیسے ملک میں بھی زراعت کی امپورٹ کے لیے فری ٹریڈ پالیسی نہیں بنائی گئی۔ اس تجارت میں کشمیر ایشو کو بھی نظر انداز نہیں ہونا چاہیے اگر پاکستان نے ایسا کیا تو یہ خودکشی کے مترادف ہوگا۔