تربیت: انفرادی اور اجتماعی پہلو

881

تنظیم کی قوت کا انحصار افراد تنظیم کے فکر وعمل میں یک رنگی اور پختگی پر ہے۔ لیکن انسان تضادات کا مجموعہ ہے۔ وہ عقیدہ کچھ رکھتا ہے عمل کچھ اور کرتا ہے، اس کا فکر کچھ ہوتا ہے اور کردار کچھ اور ہوتا ہے، وہ سوچتا کچھ ہے اور بولتا کچھ اور ہے۔ انھی تضادات کو کم سے کم تر کرنے کا عمل تربیت ہے۔
تربیت ایک صبر آزما کام ہے۔ صحبت صالح کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن اصل اہمیت خود آمادگی اور امید پسندی کو حاصل ہے۔ جو شخص اپنی تبدیلی کے لیے آمادہ ہی نہ ہو وہ تربیت کا ہر موقع ضائع ہی کر سکتا ہے۔ اسی طرح جو شخص خرابیوں کی یلغار سے ناامید ہو کر بیٹھ جائے اسے خیر کی طرف چلانا مشکل ہے۔
تربیت و تزکیہ کا عمل انسانی مزاج و کردار کی سمجھ بھی چاہتا ہے اور ان کی رعایت ملحوظ رکھنے کا بھی تقاضا کرتا ہے۔
تربیت کے ہمہ جہت پہلو
انسانی شخصیت کے گوناں گوں پہلو اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ تربیتی عمل میں تمام پہلوؤں کا خیال رکھا جائے۔ انسانی وجود کی اصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس میں فجور اور تقوی دونوں ہی کی طرف مائل ہونے کی قدرت رکھی ہے۔ اسی کے ساتھ فطری طور پر فجور و تقوی کی پہچان بھی رکھی ہے ۔ تربیت کا عمل فرد کو بخشی گئی آزادی ارادہ سے دو باتوں کا مطالبہ کرتا ہے: اوّل یہ کہ وہ اپنے داخلی وجود میں کارفرما فجور سے پاکی اختیار کرنے کی کوشش کرتا رہے، دوم یہ کہ وہ تقوی کی افزائش کے لیے کوشاں رہے۔ افراد کی تربیت کے تین نمایاں پہلو ہیں:
٭نفس کا تزکیہ
٭عملی رویے کی اصلاح
٭صلاحیتوں کی نشو و نما
٭نفس کا تزکیہ
انسان کے اندر خیر اور شر کی رزم گاہ قائم ہے۔ خارجی دنیا میں خیر و شر کا جو معرکہ برپا ہے وہ اس معرکہ خیر و شر سے چھوٹا ہے جو ہمارے اندر مسلسل جاری و ساری رہتا ہے۔ کبھی ہم جیت جاتے ہیں، کبھی ہار جاتے ہیں۔ ہر آن برپا اس معرکے میں آخری جیت فلاح سے ہم کنار کرتی ہے اور آخری ہار خسران سے دوچار کرتی ہے۔ اس کشمکش میں اگر صرف خیر کے لیے کی جانے والی سرگرمی ہی مطلوب ہوتی تو مرحلہ قدرے آسان ہوتا۔ لیکن عملِ خیر کی کوشش ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ قلب کی پاکیزگی اور نیت کا خلوص بھی درکار ہے۔ مشکل یہ ہے کہ دست دل ہر دم رضائے الہی کا دامن تھامے نہیں رہتا۔ دل ہے کہ گزرگاہ خیال ہے، کبھی دولت کی حرص تو کبھی شہرت کی چاہ تو کبھی اقتدار کی ہوس آئینۂ دل کو غبار آلود کرتی رہتی ہے۔ قلب کی پاکیزگی کے لیے لازم ہے کہ اسے ذکر الہی سے منور رکھا جائے اور ذکر بھی وہ جو بے ساختہ ہو، ہر کلفت و راحت میں اللہ یاد آ جائے، ایک گہری سانس اس کی یاد کو دل میں سمیٹ لے۔ ہر شخص کے شب و روز میں ایسے مواقع بار بار آتے ہیں، کبھی کوئی اپنا بچھڑتا ہے تو دل اللہ سے انجام خیر کا طلبگار ہوتا ہے، جب کوئی نعمت حاصل ہوتی ہے تو دل جذبۂ شکر سے معمور ہو جاتا ہے، جب کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو اسی کے در پر دستک دیتا ہے۔ یہ سب کچھ بہت سہج، فطری طور پر ہوتا ہے اگر دل زندہ اور حساس ہو۔ دل کو زندہ رکھنے کی بالارادہ کوشش بھی ضروری ہے۔ کوششیں ہزار طرح کی ہوسکتی ہیں، یہ ہر شخص کے اپنے احوال، اپنی طبیعت پر منحصر ہے۔ لیکن نبی اکرمؐ نے بنیادی طریقہ بتادیا کہ قرآن کی تلاوت اور موت کی یاد سے دل کو زندہ رکھو، اسے زنگ آلود نہ ہونے دو۔ قلب اگر زنگ آلود نہ ہو تو آئینۂ وجود نور الہی سے روشن ہو جاتا ہے۔ اسی نور سے عقل حقیقت کا ادراک کرتی ہے اور روح اسی نور سے جلا پاتی ہے۔ ہمارا وجود اسی وجود مطلق کا مرہون منت ہے۔ اس نور سے وابستگی کے بغیر ہمارا علم حجاب، ہماری تگ و تاز بے کار، ہماری ترقی وبال جان ہے اور ان سب کا نتیجہ خسران ہے۔
کردار سازی: شخصی پہلو
انسان کو ارادے کی آزادی تو حاصل ہے لیکن ارادے کے مطابق عمل بھی انجام پا جائے یہ انسان کے بس میں نہیں۔ مشیت ایزدی کے بغیر انسانی ارادہ عمل کی صورت گری نہیں کر سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان جب کسی عمل خیر کا ارادہ کرے تو توفیق الہی کا طلبگار ہو۔ اللہ تعالی نیک ارادے کو قبول کرتا ہے اور اگر اس ارادے کے مطابق عمل میں خیر ہو تو اسے صادر ہونے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ اور جب نفس کی اکساہٹ کسی شر کی طرف مائل کرے تو اللہ کی پناہ کا طلبگار ہو۔ اللہ تعالی اس نفسانی ارادے پر گرفت نہیں کرتا جب تک انسان اس کے مطابق عملِ شر میں مبتلا نہ ہو جائے اور یہ بھی اللہ کی مشیت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اگر انسان برے ارادہ کا احساس ہوتے ہی پناہ الہی طلب کر لے تو اللہ تعالی اسے برے عمل سے بچا لیتا ہے۔ اور اگر انسان ارادۃً شر پر قائم رہے تو اللہ تعالی اسے سوئے عمل کی طرف جانے سے زبردستی نہیں روکتا لیکن اسی حد تک ڈھیل دیتا ہے جتنی اللہ کی مشیت ہو۔
انسان کے عقیدے، ارادے اور عمل کے درمیان باہمی تعامل کی یہی حرکیات (dynamics) ہیں جواس کے کردار میں رونما ہوتی رہتی ہے۔ کبھی اس کا عمل اس کے ارادے کا اور اس کا ارادہ اس کے عقیدے کا مظہر ہوتا ہے تو کبھی ان میں باہم دگر تضاد رونما ہوتا ہے۔ نیت اور عمل کا سلسلہ مشیت الہی سے انسان کو وہ کچھ بناتا چلا جاتا ہے جس کا نتیجہ خیر یا شر کی صورت میں جہانِ حاضر اور جہانِ غائب میں ظاہر ہوگا۔ انسانی کردار کی یہ شخصی جہت حسن عمل کی مسلسل کاوشوں سے نکھرتی چلی جاتی ہے جس کی چمک اسے معاشرے میں نیک نامی کی پہچان بخشتی ہے، لوگ اس پر بھروسا کرتے ہیں اور اس سے خیر کی امید کی جاتی ہے۔
کردار سازی: اجتماعی پہلو
کردار کے اس شخصی پہلو کا امتحان اجتماعی زندگی کے نشیب و فراز میں ہوتا ہے۔ اجتماعیت میں شخصی کردار کو دوسرے بہت سارے کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ مختلف کرداروں کے مابین تعلق کے نتیجے میں ٹکراؤ، نباہ یا ہم آہنگی کا انحصار درج ذیل عوامل پر ہوتا ہے:٭تہذیب، رجحان و مزاج
٭فہم و شعور اور کامن سنس
٭ مقصد سے وابستگی
ہر شخص کو اللہ تعالی نے منفرد بنایا ہے۔ ہر شخص کی طبیعت، رجحان اور مزاج الگ الگ ہے۔ لیکن انسان کو یہ صلاحیت عطا کی گئی ہے کہ وہ تہذیبِ نفس کی مسلسل مشق سے اپنی طبیعت، رجحان اور مزاج کو اجتماعیت کے لیے فائدہ مند بنا سکے اور اس کے منفی پہلوؤں پر قابو پا سکے۔ جو لوگ اس مشق میں کام یاب ہوجائیں وہ اجتماعیت کے لیے بوجھ نہیں بنتے۔ اس مشق کے لیے اس سوچ کو تازہ رکھنا ضروری ہے کہ اگر یہی چیز وہ دوسروں میں پائے تو اس کے لیے وہ خوشگوار ہوگی یا ناگوار۔ جو چیز دوسروں میں اچھی نظر آئے اسے پانے کی خواہش اور جو چیز دوسروں میں بری نظر آئے اسے چھوڑنے کا جذبہ ہمارے نفس کی تہذیب کرتا چلا جاتا ہے۔
دوسروں کے ساتھ نباہ کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا فہم و شعور بالیدہ ہو اور ہمارا کامن سنس اجتماعی معاملات و مسائل کی نزاکتوں اور افراد کے انداز و اطوار اور اسلوب و گفتگو کو سمجھنے میں مددگار ہو۔ ہر معاملہ اور ہر بات کو صحیح سیاق اور تناظر میں لینے اور دل کے بجائے دماغ سے پرکھنے کا ملکہ ہو۔ بحث و گفتگو میں دل کی تپش کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے کام لینے کی عادت ہو۔ بلند آہنگی کے بجائے افہام و تفہیم اور استدلالی انداز باہمی گفتگو کو با معنی اور نتیجہ خیز بناتا ہے۔ اس طرح دماغ رد عمل سے اور دل تکدر سے پاک رہتا ہے۔
اجتماعی زندگی میں ہر شخص کو یہ سمجھ ہونی چاہیے کہ معاملات اور مالیات کی درستی کا انحصار دیانت اور شفافیت پر ہے۔ رشتوں میں نباہ کے لیے درگزر کا رویہ اور تعلقات میں مضبوطی کے لیے قدر دانی کا رویہ ضروری ہے۔ اس کے لیے دل کی کشادگی ضروری ہے۔ یہ رویے ہماری عادت کا حصہ بن جائیں، اس کے لیے بالارادہ کوشش ضروری ہے۔
اجتماعیت میں کردار کی سطح کا تعین اور اس کی قبولیت کے لیے بیباکی اور حق گوئی سے زیادہ دوسروں کے لیے رعایت اور خود کے لیے عزیمت کا رویہ درکار ہے۔ اجتماعی زندگی میں کردار اسی وقت معقول و مناسب ٹھہرتا ہے جب اصول پسندی اور مداہنت پسندی کی صحیح سمجھ بھی ہو اور ان کے تقاضے بھی واضح ہوں۔ اصول پسندی اگر مقصد کے بنیادی تقاضوں کی پاسداری سے آگے بڑھ کر سخت گیری کے رویے کی طرف لے جائے یا مصالحت پسندی مصلحت کے ضروری تقاضوں سے آگے بڑھ کر زمانہ سازی کے رویے کا خوگر بنائے تو یہ دونوں ہی رویے اجتماعیت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اعتدال پسندی کا رویہ ہر شخص کی سمجھداری پر منحصر ہے۔ اسی لیے اجتماعی زندگی میں صحیح رویے کا دار و مدار فہم و شعور اور کامن سنس پر ہے۔
کسی بھی اجتماعیت کا اصل سرمایہ اس کی افرادی قوت ہوتی ہے۔ اور افرادی قوت کی قدر و قیمت کا تعین افراد کے شخصی اور اجتماعی کردار کی بنا پر ہوتا ہے۔ شخصی کردار میں بلندی اور اجتماعی کردار میں گہرائی مطلوب ہے۔ تواضع و انکسار شخصیت کی بلندی کا اور عفو و درگذر، اس کی گہرائی کا پتا دیتے ہیں۔ شخصی کردار آسمان کی طرح اونچا ہو کہ لوگ نگاہ اٹھا کر دیکھیں اور اجتماعی کردار سمندر کی طرح گہرا ہو کہ ناموافق حالات میں بھی شانت رہے۔