حرم کعبہ اور حرم نبوی کا ادب دین حق کی شرط اوّل

337

گزشتہ دنوں اخبارات کہ صفحات پلٹے ہی تھے کہ افسوس ناک خبر پڑھ کر دل کو تکلیف پہنچی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو جھٹکا کا سا لگا قلم اٹھایا تو شدت غم سے دل و دماغ نے ساتھ نہ دیا دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوگئیں خیال آیا کس قسم کے بدبخت لوگ تھے جنہوں نے میرے آقا ؐ کے در مبارک پر اپنی ناپاک سیاسی شرارت کا دیدہ دلیری کے ساتھ مظاہرہ کیا ارے بد بختو اس در پر تو محبت رسول ؐ کے سوا کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا، یہ قسم کے لوگ سیاست کے میدان میں آکھڑے ہوئے ہیں کہ جنہیں مذہب و ملت کی عزت اور غیرت کا کوئی پاس نہیں اور جو مقامات مقدسہ کے ادب کے تقاضوں کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں جنہیں اس بات کا خیال بھی نہیں کہ عبادت گاہوں میں سیاسی سرگرمیاں نہیں کی جاتیں اور پھر عبادت گاہ بھی کون سی جہاں آواز بلند کرنا بھی اس مقام کی شان کے خلاف ہے جہاں جانے والے تو صرف رحمت العالمینؐ کی شان مقدس میں درود و سلام کا ذکر کرتے نہیں رُکتے اور دل اس بات پر شاداں اور فرحاں ہوتے ہیں کہ وہ اس فرش پر آکھڑے ہیں جہاں آنے کی دنیا تمنا کرتی ہے اور جہاں آنے کی خواہش شاہ اور گدا دونوں کے دلوں میں موجزن ہوتی ہے جہاں آنے والے اپنے لیے رحمتیں اور برکتیں سمیٹنا چاہتے ہیں جہاں آنے والے کی پہچان آقائے دوجہاں محمد عربیؐ کے غلام سے زیادہ کوئی نہیں ہوتی جہاں نہ کوئی حاکم ہوتا اور نہ کوئی محکوم، اللہ اور اس کے پیارے رسول ؐ کی خدمت اقدس میں پیش ہونے والا کسی تقسیم کے ساتھ نہیں پیش ہوتا وہاں پہنچنے والا نہ عربی ہوتا ہے اور نہ عجمی، نہ ایرانی ہوتا ہے نہ افغانی، نہ پٹھان ہوتا ہے نہ سندھی وپنجابی، نہ بلوچ ہوتا ہے نہ مہاجر ان کے درمیان کسی قسم کی سیاسی اور سماجی تقسیم اور نہ ان کی کوئی قسم قسم کی شناخت بلکہ آنے والا ہر فرد محمد عربیؐ کا غلام کہلانے پر ہی نازاں اور فرحاں ہوتا ہے۔
رحمت عالمؐ کا در وہ در عظیم ہے جہاں عاشقان رسول اپنے لیے دنیا و جہان کی نعمتیں اور رحمتیں سمیٹنے جاتے ہیں۔ در رسول رحمتؐ پر ہونے والی نا پسندیدہ سیاسی سرگرمی نے عاقبت نااندیشوں کی غیر ذمے دارانہ سرگرمیوں کا پردہ چاک کردیا کہ ان کے مقاصد کیا ہیں انہیں اقتدار سے اتنا پیار ہے کہ پیارے آقا محمد عربیؐ کے در پر ہی شر اور فساد پھیلا بیٹھے ان بے حسوں کو اس در عظیم کے تقدس کا ذرہ برابر بھی خیال نہ آیا کہ جہاں جبین نیاز صرف ان کہ احترام میں جھکی رہتی ہے۔ ان بدبختوںکی عقل پر پردے پڑ گئے تھے جو انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ان کی دنیا ہی نہیں آخرت بھی برباد ہو جائے گی۔ ہمارے سیاست دانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس قسم کی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں۔
ہمارے ریاستی اداروں کو بھی اس سنگین صورتحال پر توجہ دینی چاہیے اور اس قسم کی غیر ذمے دارانہ سیاسی سرگرمیوں میں مصروف سیاسی قیادتوں پر تاحیات سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پا بندی لگا دینی چاہیے۔ اگر اس قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر بند نہیں باندھا گیا تو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے ولے ہر خاص و عام کو اپنی عبادتیں کرنا اور سماجی معاملات نمٹانا دشوار ہو جائے گا۔ سعودی حکمرانوں کو بھی مقامات مقدسہ میں اس قسم کی حرکات کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنا چاہیے تاکہ آئندہ کسی کوبھی اس قسم کی شرارت اور غیر ذمے دارانہ حرکت کی جرأت و ہمت نہ ہو۔ یہ بھی کھلم کھلا دہشت گردی ہی تو ہے کہ لوگ خوف کا شکار ہو جائیں، ان کی آزادانہ نقل وحرکت محدود ہو جائے ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے؟ جب دنیا ہمیں بتائے گی کہ ہمارے ملک کے سیاسی معاملات اس حد تک جا پہنچے ہیں کہ عبادت گاہوں میں نعرہ بازی کی جارہی ہے اس طرح بات مزید بڑھ بھی سکتی تھی کہ کچھ
شرپسند وں نے حرم نبوی کے تقدس کو پامال کیا تو امت مسلمہ کے دل اس غیر ذمے دارانہ حرکت پر دکھی ہیں۔ ہمارے اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں نے اپنے کارکنوں کے دلوں میں دوسروں کے لیے نفرت اور بغض کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے، اپنے مخالفین کے لیے نفرت کی آگ بھر دی ہے، اس قسم کی نازیبا حرکت کرنے والی سیاسی جماعت اور ان کے قائدین اجتماعی طور پر امت مسلمہ سے اس گستاخی پر معافی مانگیں اور ربّ کعبہ کے حضور توبہ کریں۔ وہاں تو لوگ اپنی نفرتیں اور دشمنیاں بھلا کر ایک دوسرے سے معافی مانگ کر پیش ہوتے ہیں کہ آقا محمد عربیؐ ہم گنہگار بندوں سے راضی ہو جائیں کیوں کی ان کی رضا میں ہماری دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔ وہاں پہنچ کر کسی کی دل آزاری نہیں کی جاتی کسی کا دل نہیں دکھایا جاتا کسی کے خلاف نفرت کا اظہار نہیں کیا جاتا وہ اس عظیم ہستی کا دربار ہے کہ جس نے فتح مکہ کے موقع پر بڑے بڑے ظالموں کو عام معافی دے کر ایک عظیم حکمرانی کی داغ بیل ڈالی تھی جو آج بھی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔
سیاست تمیز اور تہذیب سکھاتی ایک مثالی اور منظم قوم بننے کا سبق دیتی ہے جہاں پرلوگ خود ہی مدعی اور خود ہی منصف نہیں بنتے بلکہ مدعی بن کر منصف کو اس کا کام کرنے کا مکمل موقع دیتے ہیں اور اس کے فیصلوں پر معترض نہیں ہوتے اور نہ ان میں اپنی مرضی کے نقطے تلاش کرتے ہیں تا کہ عدلیہ کو بھی دنیا کے سامنے متنازع بنانے کی کوشش کریں۔ ہمارے ملک میں قانون کی کمزور عمل داری کی وجہ ہی سے لوگ ایک دوسرے کا احترام اور عزت بھول بیٹھے ہیں، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون خود اپنا راستہ بنائے تاکہ ملک میں ایک مثالی اور مستحکم معاشرہ قائم ہو سکے اور منفی سیاست کرنے والوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ اس واقعے پر جو سیاستدان مذمت کے بجائے عوامی جذبات قرار دے کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی مذموم کوشش کررہے ہیں۔ انہیں خوف خدا ہونا چاہیے۔ پاکستانی سرکاری وفد کے ساتھ کیا جانے والاغیر ذمے دارانہ سلوک کم ظرف اور بیمار سیاسی ذہنوں کی پیداوار تھا اور جو شاید عمران خان کی تقریروں کا تسلسل تھا، ہماری عدلیہ اور مقتدر حلقوں کو خان صاحب کی پچھلے دنوں کی جانے والی جذباتی تقریروں کا اعلیٰ سطح پر نوٹس لینا چاہیے کیوں کہ ان کی تقریروں ہی نے ان کے پیرو کاروںکو اس قسم کی غیر ذمے دارانہ اور غیر اخلاقی مظاہروں کی طرف راغب کیا ہے۔ خان صاحب کے ایما پر ہی ان کے کارکنوں نے میاں صاحب کی رہائش گاہ کے باہر ان کے راستوں اور ان کی ملا قاتوں کے دوران غیر ذمے دارانہ مظاہرہ کیے ہیں اور ظاہر سی بات کے پھر اس کے جواب میں بھی میاں صاحب کے ہمدردوں نے بھی خان صاحب کی سابقہ اہلیہ کے گھر کے باہر اس مشق کو دہرایا ہے۔ موجودہ واقعہ ہمارے سیاست دانوں کے لیے ایک اہم ترین سبق ہے کہ وہ سیاست کو سیاست کے ایوانوں اور اپنے پروگراموں تک محدود رکھیں، اپنے کارکنوں کو بھی ایک دوسرے کے احترام کا درس دیں، سیاسی مخالفتوں کو ملک کی بدنامی کا باعث نہ بنائیں۔ خدا خان صاحب کو ہدایت دے کہ وہ مثبت فکر اختیار کریں اور کسی کو بھی یہ کہنے سے احتیاط کریں کہ مدینہ میں سرکاری وفد کے ساتھ جو کچھ ہوا ان کے اعمال کا نتیجہ تھا دلوں کے حال اللہ جانتا ہے اور وہ ہی جزا اور سزا دینے والا ہے، ایک کمزور انسان کو یہ کہنے کا قطعی حق نہیں کہ جس کے بارے میں جو چاہے کہہ دے، خان صاحب کے ارد گرد جو دین دار لوگ ہیں انہیں چاہیے کہ ان کی اصلاح میں اپنا حصہ ڈالیں تاکہ ان کے منفی رویے میں مثبت رحجانات پیدا ہوں کیوں کہ خان صاحب اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر غیر ذمے دارانہ انداز سیاست اختیار کر بیٹھے ہیں اور ان کی حکومت بھی اسی قسم کی ہٹ دھرمیوں کی وجہ سے ہی گئی ہے، انسان کو انسان سمجھنا ہی عظمت انسانیت ہے۔