افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

300

روزے کی روح
روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی پر اس حالت میں خدا کی خداوندی اور بندگی وغلامی کا احساس پوری طرح طاری ہوجائے اور وہ ایسا مطیعِ امر ہوکر یہ ساعتیں گزارے کہ ہر اس چیز سے رْکے جس سے خدا نے روکا ہے، اور ہر اس کام کی طرف دوڑے جس کا حکم خدا نے دیا ہے۔ روزے کی فرضیت کا اصل مقصد اسی کیفیت کو پیدا کرنا اور نشو ونما دینا ہے نہ کہ محض کھانے پینے اور مباشرت سے روکنا…
اگر کسی آدمی نے اس احمقانہ طریقے سے روزہ رکھا کہ جن جن چیزوں سے روزہ ٹوٹتا ہے ان سے تو پرہیز کرتا رہا اور باقی تمام ان افعال کا ارتکاب کیے چلا گیا جنھیں خدا نے حرام کیا ہے تو اس کے روزے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک مْردہ لاش، کہ اس میں اعضا تو سب کے سب موجود ہیں جن سے صورتِ انسانی بنتی ہے، مگر جان نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان انسان ہے۔ جس طرح اس بے جان لاش کو کوئی شخص انسان نہیں کہہ سکتا، اسی طرح اس بے روح روزے کو بھی کوئی روزہ نہیں کہہ سکتا۔ یہی بات ہے جو نبیؐ نے فرمائی کہ: ’’جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے‘‘۔ (بخاری)
جھوٹ بولنے کے ساتھ ’جھوٹ پر عمل کرنے‘ کا جو ارشاد فرمایا گیا ہے یہ بڑا ہی معنی خیز ہے۔ دراصل یہ لفظ تمام نافرمانیوں کا جامع ہے۔ جو شخص خدا کو خدا کہتا ہے اور پھر اس کی نافرمانی کرتا ہے وہ حقیقت میں خود اپنے اقرار کی تکذیب کرتا ہے۔ روزے کا اصل مقصد تو عمل سے اقرار کی تصدیق ہی کرنا تھا، مگر جب وہ روزے کے دوران میں اس کی تکذیب کرتا رہا تو پھر روزے میں بھوک پیاس کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ حالاں کہ خدا کو اس کے خلوے معدہ کی کوئی حاجت نہ تھی۔ اسی بات کو دوسرے انداز میں حضورؐ نے اس طرح بیان فرمایا ہے: ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا اور کتنے ہی راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں جنھیں اس قیام سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔ (دارمی)
٭…٭…٭
ضبطِ نفس
انسان کو خدمت گار اور آلۂ کار کی حیثیت سے جو بہترین ساخت کا حیوان (جسم) دیا گیا ہے اس کے بنیادی مطالبات تین ہیں، اور چوں کہ وہ تمام حیوانات سے اْونچی قسم کا حیوان ہے اس کے مطالبات بھی ان سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ وہ صرف زندہ رہنے کے لیے غذا ہی نہیں مانگتا، بلکہ اچھی غذا مانگتا ہے۔ طرح طرح کی مزے دار غذائیں مانگتا ہے، غذائی مواد کی ترکیبوں کا مطالبہ کرتا ہے، اور اس کے اس مطالبے میں سے اتنی شاخیں نکلتی چلی جاتی ہیں کہ اسے پورا کرنے کے لیے ایک دنیا درکار ہوتی ہے۔ وہ صرف بقاے نوع کے لیے صنفِ مقابل سے اتصال ہی کا مطالبہ نہیں کرتا، بلکہ اس مطالبے میں ہزار نزاکتیں اور ہزار باریکیاں پیدا کرتا ہے، تنوع چاہتا ہے، حْسن چاہتا ہے، آرایش کے بے شمار سامان چاہتا ہے، طرب انگیز سماں اور لذت انگیز ماحول چاہتا ہے، غرض اس سلسلے میں بھی اس کے مطالبات اتنی شاخیں نکالتے ہیں کہ کہیں جاکر ان کا سلسلہ رْکتا ہی نہیں۔ اسی طرح اس کی آرام طلبی بھی عام حیوانات کے مثل صرف کھوئی ہوئی قوتوں کو بحال کرنے کی حد تک نہیں رہتی، بلکہ وہ بھی بے شمار شاخیں نکالتی ہے جن کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔
اس طرح ان تین ابتدائی خواہشوں سے خواہشات کا ایک لامتناہی جال بن جاتا ہے جو انسان کی پوری زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لینا چاہتا ہے۔ پس دراصل انسان کے اس خادم، اس منہ زور حیوان کے پاس یہی تین ہتھیار وہ سب سے بڑے ہتھیار ہیں جن کی طاقت سے وہ انسان کا خادم بننے کے بجاے خود انسان کو اپنا خادم بنانے کی کوشش کرتا ہے، اور ہمیشہ زور لگاتا رہتا ہے کہ اس کے اور انسان کے تعلق کی نوعیت صحیح فطری نوعیت کے برعکس ہوجائے۔ یعنی بجاے اس کے کہ انسان اس پر سوار ہو، اْلٹا وہ انسان پر سوار ہوکر اسے اپنی خواہشات کے مطابق کھینچے کھینچے پھرے… اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ حیوان، شرالدواب (تمام حیوانات سے بدتر قسم کا حیوان) بن کر رہ جاتا ہے۔
٭…٭…٭
حکیمانہ تدبیر
اجتماعی روزے کا مہینہ قرار دے کر رمضان سے شارع نے یہی کام لیا ہے۔ جس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ ہر غلہ اپنا موسم آنے پر خوب پھلتا پھولتا ہے اور ہر طرف کھیتوں پر چھایا ہوا نظر آتا ہے، اسی طرح رمضان کا مہینہ گویا خیر واصلاح اور تقویٰ وطہارت کا موسم ہے۔ جس میں بْرائیاں دبتی ہیں، نیکیاں پھلتی ہیں، پوری پوری آبادیوں پر خوفِ خدا اور حبِ خیر کی روح چھا جاتی ہے، اور ہر طرف پرہیزگاری کی کھیتی سرسبز نظر آنے لگتی ہے۔ اس زمانے میں گناہ کرتے ہوئے آدمی کو شرم آتی ہے۔ ہر شخص خود گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے کسی دوسرے بھائی کو گناہ کرتے دیکھ کر اسے شرم دلاتا ہے۔ ہر ایک کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کچھ بھلائی کا کام کرے، کسی غریب کو کھانا کھلائے، کسی ننگے کو کپڑا پہنائے، کسی مصیبت زدہ کی مدد کرے، کہیں کوئی نیک کام کر رہا ہو تو اس میں حصہ لے، کہیں کوئی بدی ہو رہی ہو تو اسے روکے۔ اس وقت لوگوں کے دل نرم ہوجاتے ہیں، ظلم سے ہاتھ رْک جاتے ہیں، بْرائی سے نفرت اور بھلائی سے رغبت پیدا ہوجاتی ہے، توبہ اور خشیت و انابت کی طرف طبیعتیں مائل ہوتی ہیں، نیک بہت نیک ہوجاتے ہیں اور بد کی بدی اگر نیکی میں تبدیل نہیں ہوتی تب بھی اس جلاب سے اس کا اچھا خاصا تنقیہ ضرور ہوجاتا ہے۔ غرض اس زبردست حکیمانہ تدبیر سے شارع نے ایسا انتظام کردیا ہے کہ ہر سال ایک مہینے کے لیے پوری اسلامی آبادی کی صفائی ہوتی رہے۔
(اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر)