آئی ایم ایف معاہدے کے بعد دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے،میاں زاہد حسین

227
حکومت کا اعلان کردہ صنعتی پیکج خوش آئند مگر ناکافی ہے،میاں زاہد حسین 

کراچی: نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف آئی ایم ایف سے معاہدے کا کڑوا گھونٹ پینے کے بعد جامع اقتصادی اصلاحات کے زریعے دولت کی منصفانہ تقسیم کویقینی بنائیں۔

ملکی تاریخ میں سرمایہ ہمیشہ غریب کی جیب سے نکل کرامراء کی تجوریوں میں جاتا رہا ہے جس سے امیرمذید امیرہوتے رہے ہیں تاہم گذشتہ کچھ عرصے میں اسکی رفتارمیں زبردست تیزی آئی جس سے ملک میں درمیانہ طبقہ غائب اورغربت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا جس نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے بقول خاکم بدہن ملک دیوالیہ ہو چکا ہے اوراب اسکے شاکس موجودہ حکومت کوبھگتنا پڑرہے ہیں۔ ملک میں بجلی کی شدید ترین لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے جبکہ ڈیزل ناپید ہے۔ ان حالات میں حکومت کوٹیکس اوردیگراصلاحات کے زریعے سرمائے اوروسائل کا رخ امیر سے غریب کی طرف کرنے کی ضرورت ہے

تاکہ عوام کوکچھ ریلیف ملے اوربڑھتی ہوئی بے چینی میں کمی آئے۔ اس سلسلہ میں ان ماہرین سے مشاورت کی جائے جنھیں انکے خیالات کی وجہ سے کبھی اہمیت نہیں دی گئی کیونکہ آزمائے ہوئے ماہرین اورمشیروں کو دوبارہ آزمانے سے کوئی خاص بہتری آنا مشکل ہے۔ اس نازک مرحلے پرحکومت مقبول اقدامات سے گریزکرتے ہوئے سخت فیصلے کرے

اور کم آمدنی والوں کے لیے ڈائریکٹ ٹارگٹڈ سبسڈی کا بندوبست کیا جائے اسکے علاوہ بجلی وگیس کی چوری اور لائن لاسز کو کنٹرول کر کے قیمت کم کرنے کی کوشش کی جائے، گاڑیوں اوراشیائے تعیش کی درآمد بنداورہرقسم کی دیگرغیرضروری درآمدات پرپابندی عائد کی جائے اور سالانہ چھ سو ارب روپے خسارے میں چلنے والی سرکاری کمپنیوں کو فوری طور پرائیویٹائز کردیا جائے۔

میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ 14 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو مالی سال کے اختتام تک انیس ارب ڈالرتک بڑھ جائے گا۔ موجودہ مالی سال کے ابتدائی نوماہ میں اٹھارہ ارب ڈالرکا انتظام کیا جا چکا ہے جبکہ تین ماہ میں پندرہ سے سولہ ارب ڈالرکا انتظام کرنا ہوگا

کیونکہ جہاں ایک طرف معیشت کمزورہورہی ہے وہیں دوسری طرف زرمبادلہ کے ذخائرمیں تشویشناک حد تک کمی آرہی ہے جبکہ بجلی اورگیس کے شعبوں کا گردشی قرضہ تیزی سے بڑھ رہا ہے جس پرقابو پانا ضروری ہے۔