اقتدار کی جنگ میں سول و عسکری اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا

244

کراچی( رپورٹ :محمد علی فاروق ) سولین اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کو سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہیے بلکہ غیر جانبدار رہنا چاہیے‘دنیا بھرکے تمام جمہوری ممالک میں اسٹیبلشمنٹ اپنا ایک کردار رکھتی ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ غیر ملکی اشاروں پر کی جانے والی سر گرمیوں کا سدباب کرے اور غیر ملکی قوتوںکے لیے ملک کو نرم چارہ اور رزم گا ہ نہ بننے دے‘پاکستان میں فوجی حکومتوں کے سائے میں ہی حکومتیں پروان چڑھتی اور اترتی ہیں ‘ فوجی حکومت کا سایہ کم ہو تو جمہوریت مضبوط ہوسکتی ہے۔ ان خیالا ت کا اظہار سابق سفارت کار عزیز خان ، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی ،سیاسی و بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس اورجامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے واقعتا کوئی تعلق نہیںہے ؟‘‘ عزیز خان نے کہا کہ میرے لیے مذکورہ سوال پر جواب دینا ایک مشکل امر ہے‘ حالیہ عدالتی فیصلہ تاریخی ہے ‘ عدالتی فیصلے نے آئین کو برقرار رکھایہ ایک نیا دور ہے جہاں عدالتیں باہر کے دباؤ کے بغیر فیصلہ دینے کے قابل ہوئی ہیں۔ معراج الہدی صدیقی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کاسیاست سے تعلق تو ہے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سیاست سے اسٹیبلشمنٹ کا تعلق نہیں ہے تو وہ شخص حقائق کو چھپا رہا ہے‘ پاکستان میں ہی نہیںبلکہ دنیا بھرکے تمام جمہوری ممالک میں اسٹیبلشمنٹ اپنا ایک کردار رکھتی ہے‘ اس کردار میں کچھ چیزیں بہت اہم ہیں جو ہر جمہوری ملک میں ہونا لازمی ہیں‘پاکستان کی عجیب وغریب تاریخ ہے‘اس طرح کی زیادہ چیزیں اس وقت ہوتی ہیںجب طالع آزما نظام میں مداخلت کرتے ہیں پاور پالیٹکس میں طالع آزما ؤں کا کردار مفید نہیں رہا‘ اس نے پاکستان میں بہت گہرے نقوش چھوڑے ہیںجس سے پاکستان کو ناقابل تلا فی نقصان پہنچا ہے ‘ہمارا ایک بازو ہم سے جدا ہوگیا‘ احساس محرومی نے بڑے پیمانے پر جنم لیا ، اس لیے اسٹیبلشمنٹ کو آئین وقانون کے مطابق سامراجی ملاوٹ سے پاک اور سامراجی سازشوں سے پاک عمل کو جاری رکھنے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کر نا لازمی ہے‘اسی طرح پاکستان میں بھی سیاست سے تعلق رکھنے والے جانتے ہیںکہ بہت ساری سیاسی جماعتیں یا گروہ ایسے ہیں جو غیر ملکی قوتوں کے اشاروں پر اپنے ایجنڈے کو ترتیب دیتے رہے ہیں ایک جانب پاکستان کی سالمیت کے لیے ضروری ہے کہ ان کے بارے میں مکمل معلومات رکھی جائیں اور نہ صرف معلومات رکھی جائیں بلکہ غیر ملکی اشاروں پر کی جانے والی سر گرمیوں کی بیخ کنی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کا سدباب بھی کرے اور پاکستان کی سالمیت کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو کسی غیر ملکی قوتوںکے نرم چارہ اور رزم گا ہ نہ بنے دے ، اس درجے میںاسٹیبلشمنٹ کا کردار جائز ہے اور لازمی ہونا چاہیے ۔ رسول بخش رئیس نے کہا کہ اگر سیاست کو وسیع تر معنی میں دیکھیں تو امریکا ،یورپ یا دنیا کا کوئی بھی ملک ہو‘ اس میں اسٹیبلشمنٹ کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے‘ ملک کی خارجہ پالیسی ، ملک کی سلامتی کی پالیسی ، جنگیں،امن دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ تعلقات ،معاہدے ودیگر ایشو ز پر فیصلہ سازی کا ایک طریقہ کا ر ہے‘ اس میں خفیہ حساس ادارے ، فوج، نیشنل سیکورٹی کونسل ، فارن پالیسی آرگنائزیشن سمیت سب کی مشاورت سے ہی پالیسی بنا ئی جاتی ہیں‘ یہ بات سمجھ لینا کہ ملک کی خارجہ پالیسی یا سلامتی پالیسی صرف وائٹ ہائوس میں بنتی ہے یا پھر اسٹیٹ ڈپاٹمنٹ یا فارن آفس میں بنتی ہے ایسا ہر گز نہیں ہے‘ یہ مل جل کر بنا ئی جاتی ہیں‘ اور پاکستان میں بھی دوسرے ممالک کی طرح ایسا ہی ہے ، پاکستان میں سیاست کا ایک دوسرارخ بھی ہے کہ صدر وزیر اعظم اور کابینہ میں کو ن ہوگا ،الیکشن اور میڈیا میں کیا حالات ہوںگے ‘ امریکا میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کس حد تک ان تما م چیزوں سے علیحدہ رہتی ہے لیکن مغرب میں ایک اور اسٹیبلشمنٹ بھی ہے جس کا ذکر کرنا لازمی ہے وہاں سیاست میں زیا دہ تر کردار وہاں کی کارپوریشنز کا ہے‘ملٹی نیشنل کمپنیاں عوام کی ذہن سازی کے ساتھ انہیںمتحرک رکھنے کے لیے کمرشل ایڈز چلاتی ہیں اور سیاسی جماعتوں کو فنڈنگ کرکے ان کی سپورٹ کرتی ہیں جبکہ پاکستان میں تاریخی تناظر میں دیکھیں تو اسٹیبلشمنٹ کا کر دار کچھ مختلف ہے‘ اسٹیبلشمنٹ حکومت بنانے ، اس کو گرانے اور اس کی اکثریت کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ‘اسٹیبلشمنٹ کا گروہ بندیوں میں ہمیشہ کردار رہا ہے‘ میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی پاکستان میں فوجی حکومتوں کے سائے میں ہی حکومتیں پروان چڑھتی اور اترتی ہیں‘ فوجی حکومت کا سایہ کم ہو تو جمہوریت مضبوط ہوسکتی ہے ‘دراصل ہماری سیاسی جماعتیں بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مدد چاہتی ہیںاور وہ اس کے سامنے سرخ رو ہونا چاہتی ہیں ، اس بات کی مثالیں پاکستانی تاریخ میں با آسانی دستیاب ہیں اس لیے یہ کہنا کہ پاکستان میں حکومت سازی میں اسٹیبلشمنٹ کا کر دار نہیں ہے غلط بات ہے ۔ ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ پاکستان کی سیاست اور اقتدارکی جنگ میں اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے‘ نظریاتی طور پر تو کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہیے بلکہ غیر جانبدار رہنا چاہیے، یہ ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت مخالف بااثر اورطاقتور افراد کا ایسا گروہ ہوتا ہے جو اپنے مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے ریاست کے اندر ریاست قائم کر لیتا ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کسی نہ کسی شکل میں سیاسی و جمہوری عمل میں اپنا کردار ادا کرتی ہے‘اسٹیبلشمنٹ کا کردار 2 حصوں پرمشتمل ہوتا ہے‘ ایک سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور دوسری سول بیورو کریسی یا سول حکمران، اسٹیبلشمنٹ سویلین ہو یا عسکری دونوں ملک کی سالمیت اور سیکورٹی کو بنیاد بنا کر سیاست میں براہ راست یا بالواسطہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں‘یہی بنیادی وجہ ہے کہ عسکری ہو یا سویلین دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ریاست کی بقا اور سالمیت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں‘ ان کے مطابق سیاسی قیادت عوامی جذبات کی بنیاد پر عارضی طور پر آتے ہیں جب کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی میرٹ کی بنیاد پر مستقل بنیاد پر ریاست کی سالمیت کے لیے کام کرتے ہیں اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ مکمل طور پر ریاست کو سیاسی قیادت پر نہیں چھوڑنا چاہیے‘ وہ ممالک جہاں جمہوری ادارے مضبوط ہوتے ہیں وہاں سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سول حکمرانوں کے تابع ہوتی ہے امریکا جیسے مضبوط جمہوری ملک میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا بہت اہم کردار نظر آتا ہے‘ امریکی صدر اپنے اہم فیصلوں میں عسکری قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کو نظر انداز نہیں کر سکتا‘پاکستان میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ کی پالیسی کو کم سے کم کیا جائے اور یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب تک سیاسی قیادت عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلے کرے اور دونوں ملکی مفاد میں ایک پیج پر رہیںاور ریاست کی بقا اور سالمیت کو بر قرار رکھا جائے ۔