دیکھا جو تیر کھا کہ کمیں گاہ کی طرف ؟

627

عمران خان نے اپنے دور اقتدار کا آغاز ہی بڑے جارحانہ انداز سے کیا تھا اور بڑی حیرت کی بات ہے کہ ان کے قافلے میں ایک بھی دیدہ ور اور دور اندیش نہ تھا جو انہیں حالات اور واقعات کے مطابق حکمت عملی اختیار کرنے کی جانب راغب کرتا، اقتدار حاصل کرنے سے پہلے کی سیاست کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہی ہوتا ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اپنے بیانیے کو ملک اور قوم کے مفاد کے پیش نظر ازسر نو تشکیل دینا ہوتا ہے جب اقتدار کا ہما سر پر بیٹھ جائے تو بڑی بھاری ذمے داری عائد ہو جاتی ہے حکمران کے ہر قول و فعل پر دنیا کی نظریں لگی رہتی ہیں، لیکن خان صاحب نے اقتدار میں آنے کے بعد بھی وہی جارحانہ رویہ برقرا ر رکھا جو انہوں نے کنٹینر پر اختیار کر رکھا تھا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کی سیاست ذاتیات کے گرد گھومتی رہی ہے وہ کچھ مخصوص نکات پر بساط سیاست پر کھیل رہے ہیں اور ان کے کچھ مخصوص عزائم ہیں کیونکہ جب سوچ کا معیار یہ ہو کہ اپنے سامنے کسی کو جمنے نہیں دینا ہے اور ہر ایک کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق چلانا ہے تو اجتماعی سوچ مفقود ہو جاتی ہے فیصلے ذاتی پسند اور ناپسند سے ہونے لگتے ہیں یہ ذاتی مسائل اور معاملات کے لیے تو ممکن ہے ایسا بہتر ہوتا ہو لیکن ایک لیڈر اور قومی سطح کے لیڈر کے شایان شان نہیں کہ وہ کچھ مخصوص دائروں میں سمٹ کر اپنا سیاسی کردار ادا کرے۔
بہتر ہوتا کہ عمران خان اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی کی سیاست کے بجائے مصالحت کی سیاست کو فروغ دیتے ملکی مسائل اور معاملات پر مکالمے کو اولیت دیتے۔ قومی سطح کے کسی بھی سیاست دان کی کردار کشی کیے بنا اخلاقی راستے اختیار کیے جا سکتے تھے اس طرح ایک جانب تو ان کے سیاسی قد میں اضافہ ہو جاتا اور دوسرے ممکن ہے بہت سے مسائل گفت و شنید سے حل ہو جاتے اور جیسا کہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ پارلیمان مسائل حل کرنے کی بہترین جگہ ہے اوربہت سارے بد عنوانی کے مسائل اور معاملات کو پارلیمنٹ کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا تھا، افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے پارلیمان کی اہمیت کو آج تک سمجھا ہی نہیں، پارلیمان اور اس سے منسلک لیڈروں کے مسائل اور معاملات کو بھی حل کرنے کے لیے بھی بیوروکریسی کے چنگل میں پھنس کر احتساب جیسے ادارے قائم کر ڈالے اور اپنی بے توقیری کا خود ہی انتظام کر ڈالا کبھی یہ تک نہ سوچا کہ جس ادارے کا کام ملک اور قوم کے لیے قانون سازی ہے وہ اپنے اراکین کی بد معاملگی اور بد دیانتی کے ازالے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کیوں تشکیل نہیں دے لیتا تاکہ بے قائدگیوں کا احتساب ہو سکے شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ارکان پارلیمان یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ وہ تو خود اس لیے منتخب کیے جاتے ہیں کہ بیورو کریسی میں ہونے والی بد معاملگیوں اور بد انتظامیوں کا احتساب کر کے ملک کو کرپشن سے پاک ایک شفاف انتظامیہ فراہم کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔
آج کی صورت حال یہ ہے سیاست دانوں کی کم علمی اور غیر دانشمندی کی وجہ سے اوپر سے لیکر نچلی سطح تک ان کو عوام اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی اولین ذمے داری ہے کہ ہر سطح پر معاشرہ کے اچھے کرداروں کو متعارف کرائیں اور اپنی اپنی جماعتوں سے معاشرے کے منفی کرداروں کی بیخ کنی کرے تاکہ سماج میں ایک مضبوط، مستحکم اور باشعور سیاسی کلچر پروان چڑھ سکے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی قائدین ڈرائنگ روموں سے نکل کر گلی گلی اور محلے محلے کا دورہ کریں اور ہر گلی اور محلے سے پڑھے لکھے اور شریف لوگوں کو سیاسی عمل میں اپنا شریک کار بنائیں تو ملک سے مافیاز کی سیاست کا خاتمہ ممکن ہے، سیاست میں کرپشن کے دروازے بند کیے جا سکتے ہیں، نااہل بیو روکریسی کوذمے دار اور فرض شناس بنایا جا سکتا ہے، اور سب سے بڑھ کر ملک میں سرکاری سطح پر ہونے والی غیر ذمے دارانہ سرگرمیوں کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے رشوت، سفارش، کمیشن، کرپشن، بھتے اور لینڈ گریبنگ کو روکا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی قائدین اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی اور محاذ آرائی سے باز رہیں ملکی مسائل اور معاملات پر یکسو ہو کر عوامی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں۔ اپنی جماعتوں سے بھی ایسے لوگوں کو نکال باہر کریں جن پر کرپشن کا کوئی بھی الزام ہو اور جنہوں نے پارٹی پالیسی کے خلاف جا کر اپنی ہی پارٹی کے خلاف مسائل پیدا کیے ہوں۔
عمران خان نے کرپشن کے خلاف جن اقدامات کا آغاز کیا تھا اگر انہیں پارلیمان کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی تو ایک جانب تو عوام کا جمہوریت پر اعتماد مضبوط ہوتا اور دوسرے پارلیمان کا اپناکردار بھی نمایاں ہوتا اگر خان صاحب کی یہ کوشش تھی کہ بقول ان کے وہ سابقہ حکمرانوں سے لوٹا ہوا پیسہ نکلوانا چاہتے تھے تو پارلیمان سے بہتر کوئی جگہ نہیں تھی جہاں قومی سیاست میں حصہ لے کر مال بنانے والوں کے کچے چٹھے کھولے جاتے تاکہ پوری قوم کو معلوم ہوتا کہ کس سیاست دان نے کس کس طرح قومی خزانے کا ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے لیکن جب اداروں کے ذریعے سیاست دانوں کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا تو ایک تو جن لوگوں پر قومی خزانے کو نقصان پہچانے کا لزام لگایا گیا وہ قانونی موشگافیوں کی وجہ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور دوسرے اس قسم کے افراد کو یہ کہنے کا موقع بھی مل گیا کہ ان کے ساتھ سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے۔ سیاست دانوں کی ناسمجھی کے سبب آج ملکی وسائل صرف سرکاری اداروں اور افراد کی بھلائی اور بہتری کے لیے استعمال میں لائے جارہے ہیں اور سرکاری اداروں کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے لیے جو میزانیہ بنایا جاتا ہے اس میں بھی قومی زندگی کو نظر انداز کر کے صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے ہی کو اولیت دیتے ہوئے ملک میں ہونے والی مہنگائی کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
عمران خان نے جس مقصد کو لے کر اپنے سیاسی کردار کا آغاز کیا تھا ان کے ساتھیوں نے اس حوالے سے ان کی درست رہنمائی نہ کی بلکہ انہیں لے جاکر ایک ایسی بند گلی میں پھنسا دیا کہ انہیں اقتدار کی قربان گاہ پر ہاتھ ملنے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا نہ وہ کرپشن کے خلاف اپنے بیانیے کو لے کر آگے بڑھ سکے اور نہ ہی انہیں قومی سیاسی محاذ پر کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل ہو سکی بلکہ ان کے ساتھ شامل ہو کر جنہوں نے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کی انہوں نے بھی کرپشن مٹائو مہم میں زبانی کلامی حصہ لیا اور صرف اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے عمران خان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور کوئی ایسا عملی کام نہ کیا جس سے عوام میں عمران خان کو کوئی پزیرائی حاصل ہوتی رہی سہی کسر خان صاحب کے غیر حقیقت پسندانہ حکمت عملی نے پوری کردی۔ وہ آخر تک یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ ان کے ساتھیوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو سیاسی گرماگرمی کو کم کرنے کی کوئی ادنیٰ سی کوشش کرے بلکہ مشکل اور بدلتے ہوئے حالات میں بھی عمران خان کو اپوزیشن کے سامنے ڈٹ جانے کا مشورہ دیتے رہے اب خان صاحب کو سمجھ میں آجانا چاہیے کہ ہر وقت جارحانہ حکمت علمی اختیار نہیں کی جاتی کیونکہ جب لوگ جذبات کے سہارے میدان سیاست میں اپنا کھیل کھیلتے ہیں تو آئینی، قانونی اور اخلاقی سب ہی تقاضے ان کے ہاتھوں میں برف کی طرح پگھل کر انہیں شرمندگی میں مبتلاکردیتے ہیں اور ایسے میں تو نہ اپنے ساتھ رہتے ہیں اور نہ پرائے بلکہ بعض اوقات تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے اس کے ساتھ ہی موجودہ حکمرانوں کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں بھرا کوٹ ہے اس لیے ضروری ہے کہ عوامی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ان کی ضروریات پوری کرنے کے اقدامات کیے جائیں اگر متحدہ اپوزیشن کی حکومت ملک کے غریب عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو حکومت مخالفین کی تمام کوششیں اکارت جائیں گی اس ملک کے 98 فی صد عوام کا مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے اور ان ہی دونوں نکات کو پیش نظر رکھ کر حکمرانوں کو ایک بہتر مستقبل سنوارنے کی اولین کوشش کرنا ہی ان کی پہلی ضرورت ہونا چاہیے۔