رمضان المبارک، قرآن اور تقوی

388

اس مہینے کی عظمت و برکت کا کیا ٹھکانہ جسے خود نبی کریمؐ نے شھر عظیم اور شھر مبارک کہہ کر پکارا ہو یعنی بڑی عظمت والا اور بڑی برکت والا مہینہ، نہ ہمارا تصور اس ماہ کی عظمت کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے نہ ہماری زبان اس کی برکتوں کا احاطہ کر سکتی ہے۔
رمضان المبارک عظیم کیوں؟
اس ماہ کے دامن میں وہ بیش بہا رات ہے کہ اس رات میں ہزاروں مہینوں سے بڑھ کر خیرو برکت کے خزانے لٹائے گئے اور لٹائے جاتے ہیں، وہ لیلتہ المبارکہ جس میں ہمارے رب نے اپنی سب سے بڑی رحمت ہم پر نازل فرمائی۔
’’ہم نے اسے مبارک رات میں نازل کیا ہے بے شک ہمیں ڈرانا مقصود تھا‘‘۔
یہ کتاب کیا ہے؟ رحمتہ من ربک (تمھارے رب کی طرف سے رحمت ہی رحمت ہے) لیکن سچ پوچھیے اس ماہ کا ہر روز روز سعید ہے اور اس ماہ کی ہر شب، شب مبارک ہے، ہر دن جب روشن ہوتا ہے تو ان گنت بندوں کو یہ سعادت نصیب ہوتی ہے کہ وہ اپنے مالک کی اطاعت اور رضا جوئی کی خاطر اپنے جسم کی جائز خواہشات اور اس کے ضروری مطالبات تک ترک کر کے گواہی دیں کہ صرف اللہ تعالی ہی ان کا رب اور مطلوب و مقصود ہے اس کی اطاعت و بندگی کی طلب ہی زندگی کی اصل بھوک و پیاس ہے اور اس کی خوشنودی ہی میں دلوں کے لیے سیری اور رگوں کے لیے تری کا سامان ہے، رات کا اندھیرا چھاتا ہے تو بے شمار بندے اللہ تعالی کے حضور قیام، اس سے کلام اور اس کے ذکر کی لذت وبرکت سے مالامال ہوتے ہیں اور ان کے دل شیشے کے چراغوں کی طرح منور ہوکر ایسے جگمگاتے ہیں جیسے آسمانوں پر رات کے ستارے، اس ماہ کی ہر گھڑی میں فیض کا اتنا خزانہ پوشیدہ ہے کہ نفل اعمال صالحہ فرض اعمال صالحہ کے درجے کو پہنچ جاتے، اور فرائض ستر گنا زیادہ وزنی اور بلند ہوجاتے ہیں رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور رحمتوں کی بارش ہوتی ہے، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور نیکی کے راستوں پر چلنے کی سہولت اور توفیق عام ہوجاتی ہے جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور روزہ بدی کے راستوں کی رکاوٹ بن جاتا ہے شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور برائی پھیلانے کے مواقع کم سے کم ہوجاتے ہیں۔ (بخاری، مسلم، عن ابو ہریرہ)
پس بشارت دی نبی کریمؐ نے ہر اس شخص کو جو رمضان المبارک میں روزے رکھے اس کے سارے اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے اور اس شخص کو جو راتوں میں نماز کے لیے کھڑا رہے کہ اس کے بھی گناہ بخش دیے جائیں گے اور وہ جو شب قدر میں قیام کرے اس کے بھی، بس شرط یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی باتوں اور وعدوں کو سچا جانے، اپنے عہد بندگی کو وفا داری بشرط استواری کے ساتھ نبا ہے، اور خود آگہی و خود احتسابی سے غافل نہ ہو۔ ( بخاری،مسلم، عن ابو ہریرہ)