رمضان کے اثرات سال بھر نہ رہنے کی وجہ حقیقی روح کے مطابق روزے نہ رکھنا ہے

251

کراچی (رپورٹ :قاضی جاوید)رمضان المبارک کے اثرات سال بھر نہ رہنے کی وجہ روزے کو حقیقی روح کے مطابق نہ رکھنا ہے‘ رمضان المبارک میں روزے رکھنا، نماز اور قرآن پڑھنا رواج بن گیا ہے‘ رمضان احتساب کے ساتھ گزارا جائے تو اسلامی معاشرہ دنیا کے لیے مثال بن سکتا ہے‘ لوگوں میں اخلاص نہیں رہا‘ والدین اور علمائے کرام اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا نہیں کر رہے۔ ان خیالات کا اظہارپروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر،ممتاز عالم دین عمران خان اور صحافی اوریا مقبول جان نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’رمضان المبارک کے بعد اس کے اثرات باقی کیوں نہیں رہتے؟‘‘ واسع شاکر نے کہا کہ دنیا کے80 فیصد مسلمان رمضان المبار ک کے روزے رکھتے ہیں‘ چاند نظر آتے ہی اسلامی معاشروں کا رنگ اور ڈھنگ یک سر بدل جاتا ہے‘ مسجدیں پوری طرح آباد ہوجاتی ہیں‘ کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے‘ قرآن و حدیث کے درس کی محفلیں سجتی ہیں‘ مسلمانوں کے شب و روز اور معمولات بدل جاتے ہیں لیکن اس مقدس ماہ کے رخصت ہوتے ہی صورت حال پھر تبدیل ہو جاتی ہے اور زیادہ تر مسلمان پھر پہلے والا رنگ ڈھنگ اپنا لیتے ہیں‘ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایک ماہ تک صبح سے رات تک جاری رہنے والے معمولات ہم پر پوری طرح اثر اندازکیوں نہیں ہوتے؟ روح اور جسم کی کثافتیں دھو ڈالنے والے ماہِ مبارک کی تربیت سال بھر کتنی موثر رہتی ہے؟ماہِ صیام میں ہم کیا پڑھتے اور کیا کرتے ہیں؟اپنی خواہشات کا گلا کس حد تک گھونٹنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں اور کس حد تک عادات تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ ہم آج غربت، بے روزگاری اور بھوک سے دو چار ہیں اور ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ رمضان المبارک کے پیغام کو سمجھ کر اپنے کام کو آسان بنائیں‘ اللہ کے دین کو دنیا میں قائم کرنا ہمارا اصل کام ہے اور ہم اس کام سے دور ہوگئے ہیں‘ رمضان المبارک کی تربیت اس لیے پائیدار ثابت نہیں ہوتی کہ ہمارا معاشرہ استحصالی معاشرے کا روپ دھار چکا ہے، جس میں ہر شخص دوسرے کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتا ہے‘ ایسے میں لوگ سوچتے ہیں کہ اگر انہوں نے صرف حق اور سچ بات کہی اور زندگی کے معاملات میں راست باز رہے، تو یہ معاشرہ انہیں نگل جائے گا یا ان کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا‘ ایسے حالات میں اگر انہوں نے صرف حق حلال کمانے کا سوچا، تو انہیں 2 وقت کی روٹی بھی نہیں مل پائے گی‘رمضان ہمیں اس خوف سے باہر نکلنے کا راستہ بتاتا ہے اور اس پر غور کرنے کی ضرور ت ہے‘ اگر عوام اور علمائے کرام مخلصانہ کوشش کریں تو اس ماہ کی تربیت کے اثرات معاشرے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں لاسکتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ تربیت کرنے والوں پر بھی معاشرے کا رنگ چڑھ چکا ہے لہٰذا فرض روزوں کو ان کی حقیقی روح کے مطابق نہ تو سمجھا جاتا ہے اور نہ رکھا جاتا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ رمضان المبارک کی تربیت کے اثرات اس لیے دیرپا نظر نہیں آتے کہ لوگوں کی نیت درست نہیں ہوتی‘ پرانے زمانے کے لوگ کہتے تھے کہ رمضان کے نمازی اور برسات کے مینڈک گِنے نہیں جاتے‘ ابتدائی 2، 3 روزوں تک نماز کے اوقات میں مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے لیکن اس تعداد میں آگے چل کر کمی واقع ہو جاتی ہے اور رمضان المبارک ختم ہوتے ہی ان میں سے بیش تر افراد مساجد کا رخ کرنا چھوڑ دیتے ہیں‘ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہماری نیت میں اخلاص نہیں ہوتا‘ اگر اخلاص ہو تو ہم یہ ضرور سوچیں کہ کیا نماز مسلمانوں پر صرف رمضان المبارک کے مہینے میں فرض ہوتی ہے اور کیا دیگر احکام صرف اسی ماہ کے لیے مخصوص ہیں۔ انسان کے اعمال پر نیت اور تربیت کا بہت اثر ہوتا ہے‘ ایک وہ شخص ہوتا ہے جو جانتے بوجھتے اچھائی کی راہ پر نہیں چلنا چاہتا اور ایک وہ شخص ہوتا ہے، جو ایسا کرنا چاہتا ہے لیکن اسے اچھائی کی راہ پر چلنے کی تربیت نہیں ملی ہوتی لہٰذا اس کا ذہن برائی کی طرف لگا رہتا ہے‘ ان کے مطابق مسلمانوں کے لیے ماہ رمضان کی تربیت ریفریشر کورس کی مانند ہوتی ہے لیکن اچھے کام کرنے کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہم اس ماہِ مقدس کو بھی معمول کے مطابق گزارتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ آخر اس ماہ میں روزے ہم پر کیوں فرض کیے گئے ہیں اور اس ماہ میں نیکی اور عبادات کرنے کا اتنا اجر کیوں رکھا گیا ہے؟ اوریا مقبول جان نے کہا کہ تربیت کے ضمن میں احساس ذمے داری کا بھی مسئلہ ہے‘ موجودہ ماحول میں والدین اور علمائے کرام، دونوں تربیت کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا نہیں کر رہے‘ پورے مہینے تک روزے رکھنے اور پنج وقتہ نماز ادا کرنے کے باوجود لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس ماہ میں کتنی اچھائیاں اپنائی ہیں؟ کتنی برائیوں سے دامن چھڑایا ہے؟ تقویٰ کی کتنی منزلیں طے کی ہیں؟ لہٰذا ماہِ مقدس ختم ہوتے ہی وہ پرانی ڈگر پر چل پڑتے ہیں ‘ مسلمانوں نے اسلام کی معاشرتی اقدار کو چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہم سے منہ موڑ لیا۔ رمضان المبارک پورے احتساب کے ساتھ گزارا جائے تو اسلامی معاشرے دنیا بھر کے لیے مثال بن سکتے ہیں‘ ان کے مطابق رمضان المبارک کے حوالے سے لوگوں کا جتنا ارادہ ہوتا ہے، وہ اتنا عمل کرلیتے ہیں‘ یہ ہمارے معاشرے کا رواج بن گیا ہے کہ رمضان المبارک میں روزے رکھیںگے‘ نماز اور قرآن پڑھیں گے اور سال کے باقی دنوں میں ان سے منہ موڑے رہیں گے۔ دراصل لوگوں کی نیت مستقل اصلاح کی نہیں ہوتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عید الفطر کا چاند نظر آنے کی اطلاع ملنے کے بعد بہت سے افراد عشا کی نماز پڑھنا بھول جاتے ہیں یا مسجد کا رخ نہیں کرتے تاہم ہر سال رمضان المبارک میں بعض افراد کی ماہیتِ قلب ہو جاتی ہے۔