مطالعہ معلومات میں اضافے ،شخصیت میں نکھار اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت بڑھاتا ہے

923

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) مطالعہ انسان کی معلومات میں اضافہ، شخصیت میں نکھار اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے ‘ علم و تحقیق کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے‘ کتاب پائیدار ذہن سازی کا ذریعہ ہے جبکہ الیکٹرونک میڈیا کا موادہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے‘ مطالعہ پیسے کمانے کے لیے نہیں ہونا چاہیے‘ہمارے طلبہ قدرت کے چھپے رازوںکا پتا لگانے کے بجائے صرف سسٹم کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر راشد نسیم، جامعہ کراچی شعبہ عمرانیات کی پروفیسر رعنا صبا سلطان، شعبہ فوڈ سائنس جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر سید محمد غفران سعید نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مطالعے کے کیا فوائد ہیں ؟‘‘ راشد نسیم نے کہا کہ مطالعے کا تصور دراصل قرآن نے دیا ہے یعنی قلم اور کتاب کا تذکرہ بار بار قرآن میں آیا ہے، ’’قسم ہے قلم کی اور جو کچھ وہ لکھتا ہے‘‘ (القلم) یہ وہ قلم ہے جس سے اللہ کی برحق کتاب لکھی گئی اور پھر اس قلم کی طاقت کا علم انسان کو بھی عطا کر دیا‘ اس سے ایک بات واضح ہوجانی چاہیے کہ قرآن قیامت تک رہے گا‘ اگر اس کو اس طرح کہا جائے کہ پرنٹ میڈیا یا کتاب قیامت تک ہے تو غلط نہ ہوگا ‘ امریکا میں 40 سال قبل یہ کہا جاتا تھا کہ25 سال بعد امریکا پیپر لیس سوسائٹی بن جائے گا‘ آپ دیکھیں کہ40 سال گزرنے کے باوجود کسی بھی اہم شخصیت، صدر، وزیر خارجہ، یا ٹیکنو کریٹس کے اہم تبصرے شائع کرنے ہوں تو وہ یہ نہیںکہتے کہ وڈیو ریکارڈ کر لو بلکہ وہ کہتے ہیںکہ مسودہ یا کتاب لکھ دو‘ امریکا کی تمام بڑی شخصیات نے اپنی روداد، تجربات، نظریات، تبصرے اور کالم کے لیے وڈیو ریکارڈ نگ نہیں کی گئی بلکہ کتابیں لکھی گئی ہیں‘ کتاب پائیدار ذہن سازی و فکر سازی کا ذریعہ ہے جبکہ الیکٹرونک میڈیا میں دیا ہوا مواد یا بیان ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آج کتاب کا دور گزر گیا وہ خام خیالی میں ہیں یہ وہ بات کہاں سے گھڑ لائے ہیں‘ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس نے تحقیق اور عمل کے بغیر ترقی کی ہو‘ ترقی کا راز ہی اس میں پوشیدہ ہے‘ چاپان، برطانیہ، فرانس اور امریکا نے عروج حاصل کیا‘ آج بھی زمینی یا ہوائی سفر کیا جائے تو ہمیں جہازوں اور ٹرینوں میں ہر سیٹ کے ساتھ رسالے اور جرائد ملیں گے‘ دراصل الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے دباؤ میں آکر ہم حقیقت سے منہ موڑ رہے ہیںجیسے اپنے پاؤں پر گویا کلہاڑی مار لی ہو‘ دنیا میں کوئی قوم بھی علم وکتاب کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی‘ مسلم امہ یا پاکستان کے خلاف لگتا ہے کہ ایک سازش رچی جا رہی ہے تاکہ ان کو علم و عمل سے کاٹ دیا جائے ان کو ہوائی میڈیا میں لگا کر اصل مقصد سے دور کر دیا جائے۔ رعنا صبا سلطان نے کہا کہ مطالعے کے فوائد ہی فوائد ہیں‘ نقصان کوئی نہیں‘ آج سے تقریباً20 سال قبل تک لوگ مطالعے کا شوق و ذوق رکھا کرتے تھے مگر آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ مطالعے کا رجحان ختم ہوتا چلا گیا اور اب تو طالب علم بھی نصاب کی کتابوںکا مطالعہ بڑی مشکل سے کرتے ہیں‘ ایمرائیڈ موبائل کے بعد تو اب جیسے دنیا ہی تبدیل ہوگئی ہو‘ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی سہولت نے تو تھوڑا بہت مطالعہ کا رجحان بھی ختم کر دیا ہے‘ پبلیشرز بھی اب کتابیں چھاپنے سے گریزاں ہیں‘ ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے‘ اب طالب علموں کے پاس بھی کتابیں نہیںبلکہ موبائل ایپ ہیں جن کے ذریعے طالب علم آن لائن کتابیں اور موضوعات کو دیکھ لیتے ہیں اور اپنے الفاظ میں بیان کر دیتے ہیں‘ مطالعہ میں اب سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا لٹریچر بھی شامل ہوگیا ہے۔ رعنا صبا سلطان نے کہا کہ مطالعہ کا مطلب یہ تھا کہ وہ کسی بھی موضوع کے بارے میں پڑھے، سمجھے اور ذہن نشین کر ے تاکہ اسے اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں آسانی پیدا ہو‘ مطالعہ کرنے والا شخص آنکھیںکھول کر دنیا کو دیکھتا ہے اور بروقت مستقبل کے خطرات سے آگا ہ کر دیتا ہے ‘ ایسا انسان ہمیشہ سرخ رو ہوتا ہے‘ مطالعہ ایک انسان کی معلومات میں اضافے اور پرکشش شخصیت میں نکھار کے ساتھ، خود اعتمادی، مسائل کے حل کی تلاش، جستجو، محنت، اچھی شناخت، آگاہی اور کامیابیوں سے ہمکنار کر تا ہے‘ مطالعہ ہی ایک اچھا اور بہترین انسان بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ ڈاکٹر غفران سعید نے کہا کہ دور حاضر میں عموماً اچھی تعلیم اچھی ملازمت کے لیے حاصل کی جاتی ہے‘بہت کم طالب علم مطالعے سے اپنی ذہانت میں اضافہ اور بہترین انسان بن کر معاشرے میں اپنا کردار ادا کر نا چاہتے ہیں‘ ہمارے ہاں ہر معاملے میں سطحی معلومات فراہم کی جاتی ہیں اب اس میں اضافہ فیس بکس ، واٹس ایپ اور دیگر ویب سائٹ اور اپلی کیشن کا ہو گیا ہے‘ دور حاضر کی تعلیم سے ایک ایسا طبقہ پیدا ہوا ہے جس کا کام صرف ایک سسٹم کا حصہ بنا ہے جبکہ مطالعہ تو انسانی دماغ کے دریچوں کو کھولتا ہے تاکہ انسان دنیا کی تمام چیزوں کے راز جان کر ان سے فوائد حاصل کر سکے‘ گزشتہ ادوار میں انسان تعلیم یا مطالعہ اپنی شخصیت کو سنوارنے کے لیے کرتا تھا ‘ لوگوں میں تعلیم تو زیادہ نہ تھی مگر شعور اور غور و فکر کا گراف آج کی نسبت بہت زیادہ تھا‘ ہر گھر میں اخبار، رسالے اور جرائد کا آنا لازمی تھا‘ انہیں کسی بھی موضوع پر معلومات کے حصول کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا‘اس دور کے نوجوانوں کا رجحان یہ ہے کہ فیس بک پر کو ئی وڈیو دیکھ لی تو بس وہ ہمارے لیے ایک تعلیم کا ذریعہ بن گئی‘ اس کے سیاق و سباق کا کچھ علم نہیں ہوتا‘ گزشتہ ادوار میں سفر بھی کیا جاتا تھا تو راستے کے اطراف کا بغور جائزہ اور مطالعہ کیا جاتا تھا اور انہی شواہد کی روشنی میں سفر نامے تحریر ہوتے تھے‘ یہ سفر نامے انسان کی کر دار سازی میں اہم کردار ادا کرتے تھے‘ بنیادی امر یہ ہے کہ ہم مطالعے کی عادت کو بڑھائیں‘ مطالعہ ادب، شاعری اور جنرل نالج میں اضافے کے لیے کیا جائے‘ کسی بھی موضوع کی معلومات حاصل کی جائیں تو اس کا مقصد پیسے کمانا نہ ہو بلکہ اپنے کرادر کو سنوارنے اور معاشرے کو درست سمت پر گامزن کر نے کے لیے ہونا چاہیے‘ اگر مطالعے کو پیسے کمانے کے لیے استعمال کریں گے تو پھر ایسا علم نفع بخش ثابت نہ ہوگا۔